،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, وسعت اللہ خان
- عہدہ, صحافی و تجزیہ کار
بچپن میں ہم اکثر دیکھتے تھے کہ چلتے بازار میں دو لوگوں کے درمیان کسی بھی پرانی رنجش یا تازہ ترین ناگواریت پر اچانک سے تو تو، میں میں شروع ہو جاتی۔ راہ گیر انھیں اچٹتی نگاہ سے دیکھتے آگے بڑھ جاتے۔ تو تو، میں میں گالم گلوچ میں بدلنے لگتی تو اکادکا لوگ رکنے لگتے۔ پھر آس پاس کا کوئی نہ کوئی بزرگ منجی یا دکان پر بیٹھا بیٹھا نعرہ لگاتا ’اوئے پاگلو انسان بنو، گالم گلوچ کا کیا فائدہ۔‘
درجۂ حرارت منہ ماری کی حدود پار کر کے ہاتھا پائی کی جانب بڑھنے لگتا تو فریقین پہلے اپنی اپنی گھڑی اتار کے جیب میں رکھتے یا ساتھ والے کو پکڑاتے، پھر آستینیں چڑھاتے، کمر بند کستے، اپنے اپنے سینے کے بٹن کھولتے اور ایک دوسرے کے گریبان پر ہاتھ ڈال دیتے۔ تھوڑی بہت تھوکم تھاکی، مکا مکی بھی ہو جاتی مگر اکثر آس پاس والے یا بھلے مانس اجنبی ان دونوں کو پیچھے سے جپھا مار کے الگ الگ کر دیتے۔
جب دونوں سورماؤں کو یقین ہو جاتا کہ بادلِ نخواستہ باہمی تشدد کا خطرہ ٹل گیا ہے تو پھر دور ہوتے ہوتے بھی ایک دوسرے کی ماں بہن کا تذکرہ جاری رکھتے اور منہ پر چیلنجی ہاتھ پھیرتے اور فحش اشارے کرتے بکتے جھکتے اپنی راہ لیتے۔
اور پھر دونوں شام کو اپنے اپنے دوستوں میں شیخی بگھارتے ’اگر رانا بھائی مجھے پیچھے سے پکڑ کے دور نہ لے جاتا تو آج تو میں نے کمینے کا منہ توڑ ہی دینا تھا۔‘
کبھی کبھی چاقو بھی چل جاتے یا گھیر کے بھی حریف کو مارا جاتا مگر وہ ایک الگ سوچی سمجھی گیم ہوتی تھی۔
میں جب بھی انڈیا پاکستان کی گرمی سردی کا تماشہ دیکھتا ہوں تو جانے کیوں بچپن کے بازار و مناظر تصور میں گھوم جاتے ہیں۔ ہر بار دوطرفہ پارہ سرخ نشان تک پہنچتا ہے اور پھر کوئی نہ کوئی بیچ میں جپھا مار کے عارضی صلح صفائی کروا دیتا ہے جو کہ اچھی بات ہے۔
،تصویر کا ذریعہAFP
مستقل صلح صفائی کا امکان اس لیے نہیں کہ اس کے لیے دل اور دماغ کو کینے سے خالی کرنا پڑتا ہے۔ باقی دنیا کے لیے تو یہی غنیمت ہے کہ دونوں بھلے ’ورکنگ دشمنی‘ رکھیں اور چھوٹی موٹی سرپھٹول، مار کٹائی بھی کر لیں مگر ایسی نوبت نہ آ جائے کہ جوہری پستول لہراتے ہوئے ایک دوسرے پر پل پڑیں۔
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
دنیا اچھے سے جانتی ہے کہ غلطی سے اگر اس اوچھے پستول سے ایک بھی گولی فائر ہو گئی تو ان دونوں کے بیس پچیس کروڑ لوگ مریں نہ مریں باقی دنیا کا ماحولیاتی نظام گڑ بڑا سکتا ہے اور اس سے اربوں لوگ اور معیشتیں تتربتر ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ اپنے اپنے تحفظ کے لیے کوئی بھی پیٹھ سے پیٹھ ملے دو جوہری پاگلوں کو اپنے حال پر نہیں چھوڑنا چاہتا۔
انڈیا اور پاکستان نے ایک دوسرے کے خلاف آخری باضابطہ اعلانِ جنگ 1971 میں کیا تھا اور آخری بار دسمبر 2001 میں لوک سبھا پر دہشت گرد حملے کے بعد ایک مکمل جنگ کی کگار پر پہنچے تھے جب واجپائی حکومت نے آپریشن پراکرم کے تحت پانچ لاکھ فوجی مشترکہ سرحد تک پہنچائے اور جواب میں پاکستان نے تین لاکھ فوجی موبلائز کیے۔
اگلے دس ماہ تک دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے رکھیں۔ اکتوبر 2002 میں خرچے اور بوریت کے دباؤ میں فوجیں پیچھے ہٹنے لگیں۔ فائدے یا نقصان کا تو نہیں معلوم مگر اس لاحاصل مشق میں انڈیا کے تین سے چار ارب ڈالر اور پاکستان کے لگ بھگ سوا ارب ڈالر پھک گئے۔
کسی کا کوئی سپاہی ایک دوسرے کی گولی سے نہیں مرا البتہ غیر جنگی وجوہات کے سبب سینکڑوں فوجی ہلاک ہوئے جبکہ ڈیڑھ لاکھ انڈین اور تقریباً 50 ہزار پاکستانی شہریوں کو عارضی طور پر گھر بار چھوڑنا پڑا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ 2001 میں جنگ ہو جاتی مگر ایٹمی انشورنس کام آ گئی۔ کچھ کہتے ہیں جنگ ہو جاتی مگر دوستوں کی عقل کام آ گئی۔
اس بار بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں ممالک کی عسکری و سیاسی اسٹیبلشمنٹ اپنے اپنے لوگوں کو ’امپریس‘ کرنے کے لیے تھوڑی بہت ٹھوں ٹھاں کر لے۔ لائن آف کنٹرول بھی چند ماہ تپی رہے مگر 2025 میں کسی بھرپور جنگ کے لیے کسی بھی پایہ تخت پر کم ازکم ایک فاتر العقل کا براجمان ہونا ضروری ہے۔
دنیا ویسے ہی روس یوکرین لڑائی، غزہ کے المیے اور تجارتی جنگ سے تنگ ہے۔ ایک نیا توتا پالنا فی الحال کسی کے وارے میں نہیں آ رہا۔
رہی بات ویزہ بند کرنے کی تو کل سے پہلے بھی کون سا ویزہ آسانی سے مل جاتا تھا؟ دونوں ممالک اپنے اپنے ہائی کمیشن میں 55 اہلکار رکھیں یا 30 عام لوگوں کی بلا سے۔ کون سی ایسی تجارت ہو رہی تھی کہ جس کے بند ہو جانے سے دونوں میں سے کسی کو بھی معاشی جھٹکا لگے گا۔ کون سی آلو پیاز کی بین العلاقائی راہداری کھلی ہوئی تھی؟ کون سی کرکٹ ایک دوسرے کے میدانوں میں کھیلی جا رہی تھی؟ کتنے شاعر، ادیب، گویے اور اداکار آ جا رہے تھے؟ ایک دوسرے کے کتنے رسائل اور کتابیں سرحد پار کر رہے تھے؟
،تصویر کا ذریعہReuters
ٹارگٹ کلنگ پہلے بھی ہو رہی تھی سو اب بھی جاری رہے گی۔ ایک دوسرے کے ہمسایوں کو ایک دوسرے سے پہلے بھی بدظن رکھنے کی کوشش جاری تھی اب شاید زیادہ ہو جائے۔ پراکسی جنگ کبھی رکی ہی نہیں، انٹیلیجنس آپریشنز کبھی تھمے ہی نہیں۔
پاک انڈیا تعلقات کی ابتری کبھی ہوتی ہو گی ایک تاریخی زخم ، اب تو عرصے سے یہ ایک منافع بخش انڈسٹری ہے۔ اس میں عسکریت پسند نظریہ بازوں اور ان کے طفیلیوں، اسلحے کے تاجروں اور کمیشن ایجنٹوں، ایک دوسرے کو ہر اعتبار سے نیچا دکھانے والی بین الاقوامی طاقتوں اور ان کی سہولت کار ریاستوں کے شئیرز لگے ہوئے ہیں۔
اتنی بڑی منڈی میں ’طے شدہ سوچی سمجھی افراتفری‘ دراصل اس انڈسٹری کا مارکیٹنگ ڈویژن ہے۔ اپنے پیٹ پر کوئی کیوں پوری لات مارنے لگا۔