،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, ایشادریتا لاہری
- عہدہ, نمائندہ بی بی سی
-
گذشتہ ہفتے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں مسلح عسکریت پسندوں کے ہاتھوں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد انڈین سوشل میڈیا پر اس واقعے کے متاثرین سے متعلق بہت سی ویڈیوز وائرل ہوئیں۔ ایسی ہی ایک ویڈیو ریاست گجرات سے تعلق رکھنے والی خاتون شیتل کلاٹھیا کی بھی ہے۔
پہلگام حملے میں شیتل کے 44 سالہ شوہر شیلیش بھائی کلاٹھیا بھی مارے گئے تھے۔
انڈیا کے مرکزی وزیر سی آر پاٹل ریاست گجرات کے شہر سورت میں رہائش پذیر شیتل کے خاندان سے اظہار تعزیت کے لیے گئے۔ اس موقع پر شیتل اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پائیں اور انھوں نے وزیر موصوف کے سامنے اپنے درد اور دُکھ کا کُھل کر اظہار کیا۔
شیتل نے تعزیت کے لیے آئے وزیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کے پاس بہت سی وی آئی پی کاریں ہیں۔ لیکن ٹیکس دینے والوں کا کیا ہے؟ وہاں (پہلگام کا وہ علاقہ جہاں 26 افراد کو ہلاک کیا گیا) نہ تو کوئی فوجی تھا اور نہ ہی کوئی میڈیکل ٹیم۔‘
سوشل میڈیا پر شیتل کی یہ ویڈیو کافی وائرل ہوئی جس میں وہ کشمیر کے معروف سیاحتی مقام پر کسی بھی سکیورٹی اہلکار کی عدم موجودگی کا شکوہ کرتی نظر آتی ہیں۔
،تصویر کا ذریعہANI
انڈیا کے معروف اخبار ’دی ہندو‘ نے ریاست مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے شخص پارس جین سے بات کی ہے جو اس حملے میں بال بال بچے تھے۔ پارس کے مطابق پہلگام میں ہونے والے حملے کا دورانیہ 25-30 منٹ تک جاری رہا۔ پارس کا دعویٰ ہے کہ حملے کے مقام پر نہ تو کوئی پولیس اہلکار موجود تھا اور نہ ہی کوئی فوجی اہلکار۔
’دی ہندو‘ کی اسی رپورٹ کے مطابق سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کا کیمپ حملے کی اِس جگہ سے سات کلومیٹر دور تھا، جبکہ فوج کی راشٹریہ رائفلز (آر آر) کا کیمپ محض پانچ کلومیٹر کی دوری پر تھا۔
انڈیا میں ایک طرف جہاں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین اور بچ جانے والے اپنی آپ بیتیاں شیئر کر رہے ہیں وہیں آئے روز اس معاملے سے متعلق سوالات بھی اٹھ رہے ہیں اور فی الحال اِن میں سے بہت سے سوالات کے جوابات نہیں مل سکے ہیں۔
ان سوالوں میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پہلگام کے اس مشہور سیاحتی مقام ’بیسرن‘ پر سیاحوں کی حفاظت کے لیے کوئی سکیورٹی اہلکار کیوں موجود نہیں تھا؟
’سکیورٹی کے افراد ایک گھنٹہ بعد پہنچے‘
گھوڑے اور خچر کی خدمات فراہم کرنے والوں کی تنظیم کے سربراہ عبدالواحد وانی پہلگام کے رہنے والے ہیں۔ حملے کے بعد وہ جائے وقوعہ یعنی بیسرن پہنچنے والے پہلے مقامی تھے۔ بی بی سی کے ماجد جہانگیر نے ان سے بات کی۔
وانی نے بتایا کہ انھیں پولیس کی طرف سے 2:35 منٹ پر ایک فون کال موصول ہوئی تھی۔ وہ اس وقت گنشیبل میں تھے۔
وہ کہتے ہیں: ’پولیس نے مجھے بتایا کہ بیسرن میں کچھ ہوا ہے۔ تم وہاں جا کر دیکھو۔ میں نے اپنے بھائی سجاد کو ساتھ لیا اور بیسرن کی طرف بھاگا۔ میں ساڑھے تین بجے کے قریب وہاں پہنچا۔ اس وقت میرے علاوہ وہاں کوئی نہیں تھا۔ میں نے ہر طرف لوگوں کو خون میں لت پت دیکھا۔ پولیس ہمارے بعد پہنچی۔‘
ایک سینیئر پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس ایک گھنٹے کے بعد بیسرن پہنچی۔
دوسرے کئی ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کم از کم ایک گھنٹے بعد جائے وقوعہ پر پہنچی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس کے پہنچنے کے بعد فوج اور سی آر پی ایف کے جوان بھی پہنچ گئے۔
’بیسرن‘ جیسے معروف سیاحتی مقام پر سکیورٹی کیوں موجود نہیں تھی؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
پہلگام میں حملے کے بعد یہ سوال بار بار اٹھ رہا ہے: متاثرہ افراد کے لواحقین کی طرف سے بھی اور عام افراد کی جانب سے بھی۔
صحافی اور کشمیر کے امور کی ماہر انورادھا بھسین کہتی ہیں کہ جہاں تک انھیں یاد ہے انھوں نے ہمیشہ جموں و کشمیر میں فوجی اہلکاروں کی بھاری تعیناتی دیکھی ہے۔
انورادھا بھسین کا کہنا ہے کہ ’سنہ 1990 کی دہائی سے مجھے جموں کشمیر میں کوئی ایسی عوامی جگہ یاد نہیں ہے جہاں سکیورٹی موجود نہ ہو۔ ہر جگہ آپ کو کوئی نہ کوئی سکیورٹی اہلکار یا سکیورٹی سے متعلق انتظامات نظر آتے ہیں۔ اس لیے اس علاقے میں سکیورٹی انتظامات کا نہ ہونا باعثِ حیرت ہے۔‘
اس کے ساتھ انھوں نے کچھ اور سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ انھوں نے سوال کیا کہ حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی مبینہ حملہ آوروں کے نام کیسے منظرِ عام پر آئے؟ انھوں نے یہ سوال بھی کیا کہ متاثرین اور اُن کے اہلخانہ کی دل دہلا دینے والی تصاویر کیسے منظر عام پر لائی گئیں؟
وہ کہتی ہیں کہ ’اگرچہ سکیورٹی فورسز کو وہاں پہنچنے میں وقت لگا، مگر دوسری جانب چند ہی گھنٹوں میں اُن کے پاس حملہ آوروں کی تصاویر موجود تھیں۔ وہ اس نتیجے پر کیسے پہنچے؟ یہ تحقیقات زیادہ قابل اعتبار نہیں لگتیں۔ ایسے واقعات کی ایک تاریخ رہی ہے جن کی تحقیقات پر سوالیہ نشان لگے ہیں۔ یہ کچھ سوالات ہیں جو میرے ذہن میں ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ سنہ 2019 میں آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد بھی کشمیر میں ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ واقعہ دنیا کے سب سے زیادہ ملیٹرائزڈ زون (جہاں علاقہ جہاں فوج کی بڑی موجودگی رہتی ہے) میں پیش آیا، اس لیے بڑے سوالات اٹھتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
انورادھا بھسین کہتی ہیں کہ ’گذشتہ پانچ برسوں میں کچھ اور واقعات بھی رونما ہوئے ہیں، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عسکریت پسندی ختم ہو گئی ہے۔ یہاں تک کہ سکیورٹی اہلکار بھی جب اس معاملے پر بات کرتے ہیں تو ’کنٹرولڈ‘ جیسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ عسکریت پسندی کے ’خاتمے‘ جیسے الفاظ استعمال نہیں کرتے۔ یہ ایک سیاسی بیانیہ ہے کہ عسکریت پسندی ختم ہو گئی ہے۔ پچھلے پانچ برسوں میں جو بھی امن قائم ہوا ہے وہ فوجی کنٹرول کی وجہ سے ہے۔‘
دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز کے پروفیسر امیتابھ مٹو سکیورٹی اور سلامتی سے متعلقہ امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔
انورادھا بھسین کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’گذشتہ چند برسوں میں سیاحتی مقامات پر فوجی دستوں کی بھاری تعیناتی سے گریز کرنے کا رجحان نظر آیا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اسے ایک حکمت عملی کے طور پر اختیار کیا گیا ہے، جو اگرچہ مؤثر تھی لیکن زیادہ واضح نہیں تھی۔‘
تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’کسی بھی صورت یہ سکیورٹی میں ایک بڑی کوتاہی تھی۔‘
بی بی سی نے جموں و کشمیر کے سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) ایس پی وید سے بھی اس حوالے سے بات کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ چونکہ سیاحوں کو دور دراز علاقے میں لے جایا جا رہا تھا اس لیے وہاں پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا جانا چاہیے تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’میرے خیال میں وہاں مسلح پولیس کی موجودگی ہونی چاہیے تھی۔ پولیس یا نیم فوجی دستوں کو وہاں ہونا چاہیے تھا۔ اگر وہ وہاں ہوتے تو دہشت گردوں سے نمٹ سکتے تھے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہر جگہ پولیس اہلکار موجود نہیں ہو سکتے کیونکہ وسائل محدود ہیں۔ لیکن اگر سیاح دور دراز کے علاقے میں جا رہے تھے تو وہاں کچھ پولیس والوں کو ہونا چاہیے تھا۔‘
لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ستیش دوآ ایک طویل عرصے تک جموں و کشمیر میں تعینات رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’فوج اور نیشنل رائفلز (اے آر) کے اہلکار ہر جگہ موجود نہیں ہو سکتے۔ وہ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے سرحد پر تعینات ہیں۔ اب اگر ہم پولیس کی بات کریں تو وادی کشمیر 120 کلومیٹر لمبی اور 38 کلومیٹر چوڑی ہے۔ ہر جگہ پولیس اہلکاروں کو تعینات کرنا ممکن نہیں ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پارک میں کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ نہیں ہے
بی بی سی نے پہلگام کے کئی مقامی لوگوں سے بیسرن میں حفاظتی انتظامات کے بارے میں بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ سکیورٹی کی مجموعی خامی کا نتیجہ ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ جس پارک میں اتنی بڑی تعداد میں سیاح آتے ہیں وہاں ایک بھی سی سی ٹی وی کیمرہ نصب نہیں ہے۔
ایک اور مقامی نے بتایا کہ جس جگہ پر دن بھر سیاح آتے ہیں وہاں ایک بھی سکیورٹی اہلکار تعینات نہیں تھا۔
ایک پولیس افسر نے بھی تصدیق کی کہ بیسرن میں کوئی سی سی ٹی وی کیمرے نصب نہیں ہے۔
ایک اور سینیئر سکیورٹی اہلکار نے بی بی سی بتایا کہ اس دن بیسرن کے ٹریک پر یا بیسرن پارک کے آس پاس یا پارک کے اندر کوئی سکیورٹی اہلکار موجود نہیں تھا۔
سی آر پی ایف کے ایک سینیئر افسر نے بتایا کہ سی آر پی ایف کو کہیں بھی تعینات کرنے سے پہلے پولیس یا فوج سے اجازت لینی پڑتی ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
عام لوگوں کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟
پہلگام حملے میں عام شہریوں کو نشانہ بنانے پر بھی سوال اٹھا ہے۔ اس حملے میں شدت پسندوں نے ایسا طریقہ اپنایا جو ماضی میں اس خطے میں ہوئے دوسرے حملوں سے مختلف تھا۔
اس حملے میں فوجی یا پولیس نہیں بلکہ عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جموں و کشمیر یا ملک کے کسی بھی حصے میں طویل عرصے بعد اس طرح کا یہ پہلا حملہ تھا، جس میں اتنے بڑے پیمانے پر عام لوگوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ستیش دوآ اس کی تفصیل بتاتے ہیں۔ ’گذشتہ پانچ برسوں میں وادی کشمیر کے حالات میں بہتری اور ایک مثبت تبدیلی آئی ہے۔ لوگ دوبارہ معمول کی زندگی کی طرف لوٹنے لگے ہیں۔ سیاحت بھی بہت تیزی سے بڑھنے لگی ہے۔ دہشت گرد کبھی بھی سیاحتی علاقوں کو نشانہ نہیں بناتے ہیں۔‘
’یہ پوری دنیا میں اور خاص طور پر کشمیر میں ایک بڑا سچ ہے کیونکہ اگر دہشت گرد ایسا کرتے ہیں تو وہ مقامی کشمیریوں کی روزی روٹی کو نشانہ بنائیں گے۔ وہ مقامی لوگوں سے حمایت کی توقع رکھتے ہیں اس لیے اس قسم کی حرکت سے وہی حمایت کھوئيں گے۔ اس لیے ہماری یہ سمجھ رہی ہے کہ دہشت گرد عام لوگوں کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’جب میں کور کمانڈر تھا، تب بھی لوگ مجھ سے پوچھتے تھے کہ کیا وہ کشمیر (سیاحت کے لیے) آ سکتے ہیں؟ میں نے ہمیشہ اُن سے کہا، براہ کرم آئیں۔ آپ ڈل جھیل کے قریب بیٹھ سکتے ہیں یا سیاحتی مقامات کا دورہ کر سکتے ہیں کیونکہ ان جگہوں پر حملے نہیں ہوتے ہیں۔‘
پروفیسر امیتابھ مٹّو اس حملے میں عام شہریوں کو نشانہ بنانے کی وجہ پر سوال اٹھاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’دہشت گرد گروپوں نے عام شہریوں کو کیوں نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے؟ پہلے وہ زیادہ تر فوجی تنصیبات کو نشانہ بناتے تھے۔ اس بار انھوں نے کشمیری عوام کے جذبات کا کوئی خیال نہیں رکھا۔ کیا یہ معمول کے تصور کو مسترد کرنا ہے؟‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
‘پہلے، دہشت گرد گروپوں کی یہ حکمت عملی تھی کہ وہ فوجی اہداف اور دوسرے اہداف، جن کا مقامی آبادی پر اثر پڑ سکتا ہے، کے درمیان فرق کرتے تھے۔ اب یہ فرق ختم ہو گیا ہے۔ سوائے اس کے کہ اس بار انھوں نے ہندوؤں کو نشانہ بنایا۔‘
دوآ کا یہ بھی ماننا ہے کہ شہریوں کو نشانہ بنانے کی ایک وجہ ملک کے باقی حصوں میں جذبات کو بھڑکانا ہو سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’دہشت گردوں نے کیا کیا؟ انھوں نے ہندو مردوں کو الگ کر کے قتل کیا، مقصد یہ تھا کہ خواتین اپنے شہروں میں واپس جائیں اور اس واقعے کی کہانی سنائیں۔ عورت کی دردناک چیخ کا ہر طرف اثر ہوتا ہے اور پھر اس سے ملک کے مختلف حصوں میں جذبات بھڑک اٹھیں گے۔ انڈیا کو فیصلہ کرنا ہے کہ ہم ان کے جال میں نہ آئیں۔‘
ان کے مطابق یہ 2023 میں اسرائیلیوں پر حماس کے حملے جیسا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے حماس کا انداز اپنایا ہے، جیسا کہ حماس نے نووا میوزک فیسٹیول (اسرائیل) میں کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معصوم شہریوں، خاص طور پر سیاحوں کو مارنے کا لوگوں پر سکیورٹی فورسز کو مارنے سے زیادہ اثر پڑتا ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیا یہ انٹیلیجنس کی ناکامی تھی؟
امیتابھ مٹو نے الزام عائد کیا انھیں اس حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے پر کوئی شک نہیں ہے۔ یاد رہے کہ انڈیا کی حکومت نے اب تک اس حملے کی براہ راست ذمہ داری کسی گروہ یا ملک پر عائد نہیں کی ہے تاہم اس حملے کے بعد پاکستان کے حوالے سے سخت اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ انٹیلیجنس کی بڑی ناکامی تھی؟
مٹّو کہتے ہیں: ’یہ انٹیلیجنس کی ناکامی ہے۔ ہمیں کوئی ایسی الیکٹرانک معلومات کیوں نہیں مل پائیں جن کے ذریعے ہم اس حملے کی پیش گوئی کر سکتے اور اسے ناکام بنا سکتے۔‘
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ستیش کا بھی ماننا ہے کہ یہ انٹیلیجنس کی ناکامی تھی۔
جنرل ستیش کہتے ہیں کہ ’کیا ہم کچھ بہتر کر سکتے تھے؟ ہاں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ کوئی کوتاہی نہیں تھی، ہم بہتر انٹیلیجنس اکٹھی کر سکتے تھے۔‘
’اس واقعے سے چند دن پہلے پاکستان کے آرمی چیف نے ایک بیان دیا تھا، اس میں انھوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے بارے میں بات کی، مسلمانوں کی برتری وغیرہ کی بات کی، ہمیں اس اشارہ کو سمجھنا چاہیے تھا۔ ہمیں ایسی چیزوں کے بارے میں زیادہ محتاط رہنا چاہیے تھا، ہمیں اپنے کانوں اور آنکھوں کو گراؤنڈ پر زیادہ چوکنا رکھنا چاہیے تھا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ملک کو انسانی ذہانت کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اب ہم الیکٹرانک انٹیلیجنس پر بہت زیادہ انحصار کر رہے ہیں۔ یہاں دونوں کا بہتر امتزاج ہونا چاہیے۔‘
پہلگام میں سکیورٹی کہاں کہاں تعینات تھی
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پہلگام میں سی آر پی ایف کی ایک کمپنی ہمیشہ تعینات رہتی ہے۔ اس کے علاوہ پہلگام میں فوج کے جوان بھی تعینات رہتے ہیں۔ تاہم ان کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی ہے۔
یہ فوجی دستہ پہلگام بازار سے کم از کم چھ کلومیٹر دور تعینات ہے۔ دوسری جانب جائے وقوعہ سے چھ کلومیٹر دور پہلگام بازار میں سی آر پی ایف کی کمپنی تعینات تھی۔
پہلگام میں ایک پولیس سٹیشن بھی ہے۔ پولیس سٹیشن کے علاوہ وہاں ایک خصوصی ٹاسک فورس بھی موجود ہے۔ مجموعی طور پر پولیس سٹیشن میں کم از کم 40 پولیس اہلکار ہیں۔
پہلگام کی ایک 50 سالہ خاتون نے بتایا کہ کچھ سال پہلے تک میں لکڑیاں جمع کرنے کے لیے بیسرن کے راستے جنگل جاتی تھی۔ میں نے اس علاقے میں کبھی سکیورٹی اہلکار نہیں دیکھے۔
ایک پولیس افسر نے بی بی سی بتایا کہ پہلگام کئی سالوں سے پرامن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس یا سکیورٹی فورسز کو اندازہ نہیں تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ سکیورٹی فورسز کو حد سے زیادہ اعتماد تھا کہ پہلگام میں کوئی انتہا پسندی کا واقعہ پیش نہیں آسکتا۔
ایک ذریعے نے بتایا کہ حملے سے پہلے بیسرن میں 1,092 سیاح موجود تھے۔ حملے کے وقت تقریباً 250 سے 300 سیاح موجود تھے۔ ان کے مطابق حملے سے پہلے تقریباً 2500 سیاح روزانہ بیسرن کا دورہ کرتے تھے۔
پہلگام بازار سے بیسرن تک کا راستہ پتھریلی پہاڑیوں اور گھنے جنگلات سے گزرتا ہے۔ وہاں جانے والے سیاح یا تو گھوڑے پر جاتے ہیں یا پیدل۔
(پہلگام سے ماجد جہانگیر کے ان پٹ کے ساتھ)