،تصویر کا ذریعہYoutube
- مصنف, شکیل اختر
- عہدہ, بی بی سی اردو، دلی
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں مسلح افراد کے ایک حملے میں انڈین بحریہ کے افسر سمیت کم از کم 26 سیاحوں کی ہلاکت کی نہ صرف انڈیا بلکہ عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس انڈیا کے دورے پر ہیں۔ جبکہ منگل کو سعودی عرب کے دو روزہ سرکاری دورے پر روانہ ہونے والے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کشمیر میں سکیورٹی صورتحال کے پیشِ نظر اپنا دورہ مختصر کر کے بدھ کی علی الصبح واپس انڈیا پہنچ چکے ہیں۔
انڈیا واپس پہنچنے کے فوراً بعد وزیر اعظم مودی نے ایک اعلیٰ سطحی سکیورٹی اجلاس کی صدارت کی ہے جس میں وزیر خارجہ ایس جے شنکر، قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول، سیکریٹری خارجہ وکرم مسری اور دیگر حکام نے شرکت کی ہے۔ تاحال اس اجلاس کا اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا ہے۔
’ایکس‘ پر اپنے ایک پیغام میں وزیر اعظم مودی کا کہنا تھا کہ ’جنھوں نے بھی اس بہیمانہ کارروائی کا ارتکاب کیا ہے انھیں انصاف کا سامنا کرنا ہو گا۔ انھیں بخشا نہیں جائے گا۔ اُن کا شیطانی منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہمارا عزم ناقابل تسخیر ہے اور وہ مزید مضبوط ہو گا۔‘
،تصویر کا ذریعہANI
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ ساتھ ساتھ عالمی رہنماؤں نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’امریکہ دہشت گردی کے خلاف انڈیا کی لڑائی میں اس کے ساتھ کھڑا ہے۔‘ جبکہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے بھی پہلگام میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ دہشت گردوں کو اُن کے جرم کی سزا ملے گی۔
پہلگام میں حملے کی اطلاعات سامنے آنے کے کچھ ہی دیر بعد انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ بارڈر سکیورٹی فورس کے طیارے کے ذریعے سرینگر پہنچے ہیں جہاں انھوں نے گورنر ہاؤس میں گورنر، جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ، فوج، انٹیلیجنس اور پولیس کے اعلیٰ حکام کے ساتھ خطے کی سکیورٹی اور سلامتی کی صورتحال پر بات چیت کی ہے۔
تاحال کسی گروہ یا عسکریت پسند تنظیم کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی ہے۔ جبکہ انڈیا اور پاکستان کی جانب سے بھی اس پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
باضابطہ ردعمل کی عدم موجودگی میں انڈیا پر ’جوابی کارروائی‘ کے لیے دباؤ
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
منگل کی دوپہر پہلگام حملے کی خبر انڈین میڈیا پر شروع میں ایک چھوٹے پیمانے پر ہونے والے حملے کے طور پر نشر کی گیی جس میں ابتدائی طور پر بتایا گیا تھا کہ اس حملے میں دو سیاح زخمی ہوئے ہیں۔ بڑی تعداد میں ہلاکتوں کی خبر کافی دیر کے وقفے کے بعد اور ذرائع کے حوالے سے جاری کی گئیں۔
یاد رہے کہ انڈیا میں سرکاری سطح پر اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
جب یہ خبر سامنے آئی تو انڈین ٹی وی چینلز ریاست جے پور میں امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس کی تقریر اور وزیراعظم مودی کے سعودی عرب کے دورے کے مناظر دکھا رہے تھے۔
اگرچہ تاحال اس حملے کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی ہے جبکہ حکام کی جانب سے بھی اس ضمن میں کچھ نہیں کہا گیا ہے تاہم انڈین چینلوں پر سابق فوجی اور سلامتی کے امور کے ماہرین اس حملے کا الزام پاکستان اور پاکستانی فوج پر دھرتے نظر آئے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے جبکہ پاکستان ماضی میں بارہا سرحد پار دہشتگردی کے حوالے سے انڈیا کی جانب سے عائد کردہ الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
انڈین چینلز کے کئی اینکرز، دفاعی ماہرین اور سوشل میڈیا صارفین اس حملے پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے انڈین حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ’پاکستان کو اس کا جواب‘ دیں۔
انڈین فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل اور دفاعی تجزیہ کار سید عطا حسین نے ’این ڈی ٹی وی‘ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ ’اسرائیل پر سات اکتوبر کے حماس حملے کی کاپی ہے۔ یہ حملہ سکیورٹی فورسز پر نہیں کیا گیا ہے۔ یہ غیر مسلح سیاحوں پر کیا گیا ہے۔ یہ حملہ پورے ملک پر کیا گیا ہے۔‘
اسی چینل پر ایک دوسرے دفاعی تجزیہ کار سابق میجر جنرل سنجے میسٹن نے کہا کہ ’انڈیا کی جانب سے جوابی کارروائی تو ضرور ہو گی۔ لیکن اس بار حکومت کو فوج کو کُھلا ہاتھ دینا چاہیے۔‘
چینل ’ٹائمز ناؤ‘ نے سرخی لگائی کہ ہلاک شدگان ’اپنے مذہب کی وجہ سے مارے گئے۔‘ اس دوران بحث میں حصہ لیتے ہوئے ایک تجزیہ کار سوشانت سرین نے پڑوسی ملک کی فوج اور پنجابی مسلمانوں پر ہندوؤں سے نفرت کا الزام لگایا اور کہا کہ ’یہ علیحدگی پسندی کی تحریک نہیں۔ یہ ایک خالص جہادسٹ اسلامسٹ تحریک ہے۔ وہ (حملہ آور) نفرت انگیز جہادی نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔‘
ٹائمز ناؤ کی اینکر ناویکا کمار نے پروگرام کے اختتام میں کہا کہ ‘اب بات حد سے نکل چکی ہے۔ آج انڈیا کی روح پر حملہ کیا گیا ہے۔ آج پورے ملک پر حملہ ہوا ہے۔ انھیں (پاکستان) اس کی قیمت چکانی ہو گی۔‘
اس دوران ’آج تک‘، ’زی ٹی وی‘ اور ’نیوز 18‘ جیسے چینلز پر پاکستانی فوج کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا ایک حالیہ خطاب بار بار دکھایا گیا جس میں وہ دو قومی نظریے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمان ہندوؤں سے ہر معاملے میں مختلف ہیں۔
اسی خطاب کے دوران وہ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ پاکستان کی ’شہ رگ تھا اور ہمیشہ رہے گا۔‘ خیال رہے کہ یہ خطاب جنرل عاصم منیر نے اسلام آباد میں گذشتہ منگل کو اوورسیز پاکستانیوں کے کنونشن کے دوران دیا تھا۔
اس موقع پر انھوں نے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کا موقف بیان کیا تھا اور کہا تھا کہ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ اس وقت تک ڈٹ کر کھڑا رہے گا جب تک اسے انڈین کے قبضے سے آزادی نہیں ملتی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
’نیوز 18‘ پر ایک بحث میں حصہ لیتے ہوئے سابق فوجی افسر اور دفاعی تجزیہ کار میجر گورو آریہ نے الزام عائد کیا کہ ’وہ (پاکستان) کشمیر میں نظام مصطفیٰ چاہتے ہیں۔ ہمارا دشمن حافظ سعید نہیں ہے، ہماری دشمن پاکستانی فوج ہے، جب تک ہم وہاں داخل ہو کر فوج کو نقصان نہیں پہنچاتے تب تک کچھ نہیں بدلے گا۔‘
اسی طرح ’زی ٹی وی‘ پر سرخی تھی کہ ’کیا پہلگام حملے کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے؟‘
چینل ’آج تک‘ پر سابق میجر اے کے سیوائج نے دعویٰ کیا کہ ’یہ انڈیا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔۔۔ جب تک ہم اسے (پاکستان کو) برباد نہیں کریں گے تب تک یہ سلسلہ بند نہیں ہو گا۔‘
اسی طرح سابق میجر سنجے مینسٹن کا کہنا تھا ’وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، اب اور کوئی چارہ نہیں بچا۔‘
دفاعی ماہر ریٹائرڈ میجر جنرل وشنبھر دیال نے رائے دی کہ ’انڈیا کی ملٹری پاور پاکستان سے زیادہ ہے۔ اب اس کی ملٹری طاقت کو تباہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘
متعدد انڈین چینلز پر ممکنہ ’جوابی کارروائی‘ کے آپشنز پر بھی غور کیا گیا۔
یاد رہے کہ ماضی میں بھی انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں حملوں کے بعد کوئی ٹھوس ثبوت دیے بغیر اسی نوعیت کی گفتگو ہوتی رہی ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں انڈین میڈیا پر چلنے والے اس بیانیے کی تردید اور مذمت کی جا رہی ہے۔
پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈین میڈیا کا پاکستان کےخلاف پروپیگنڈا من گھڑت اور جھوٹا ہے، فالس فلیگ کا ڈرامہ رچانا انڈین روایت ہے۔‘
جلیل عباس جیلانی کا مزید کہنا تھا کہ جب کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو بجائے تحقیقات کے انڈیا پاکستان پر الزام دھر دیتا ہے جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے انڈیا اس واقعے کی مکمل چھان بین کرے۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ انڈین ایجنسیاں اس نوعیت کی دہشت گردی کے واقعات میں خود ملوث ہوتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حال ہی انڈیا کی جانب سے پاکستان کےعلاوہ کینیڈا اور امریکا سمیت مختلف ممالک میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ملوث ہونے کے ثبوت سامنے آئے ہیں۔
جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ عالمی برادری کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان پر الزام لگانا انڈیا کا پرانا وطیرہ ہے جس پر عالمی برادری یقین نہیں کرتی۔
انڈین میڈیا کی جانب سے سامنے آنے والے الزامات اور پاکستان کے خلاف جوابی کارروائی کرنے کے مطالبات پر پر ردعمل دیتے ہوئے انڈیا میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ انڈیا کی کسی بھی قسم کی بزدلی کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان پوری طرح تیار ہے، مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بار پاکستان کا جواب منہ توڑ ہو گا۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور سینیٹر شیری رحمان نے پہلگام میں ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بدقسمتی سے انڈیا کی جانب سے ایسے حملوں کے لیے پاکستان پر انگلیاں اٹھانا ایک عام ردعمل ہے۔‘
اپنے ٹوئٹر پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا اپنی ناکامیوں کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’توقع کی جا سکتی ہے انڈیا میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بغیر کسی جانچ پڑتال کے اب پاکستان کی تباہی کا مطالبہ کریں گے۔‘
پاکستان میں چند صحافی بھی جوابی کارروائی کی صورت میں پاکستان کی تیاری کی بات کرتے نظر آئے۔
اینکر غریدہ فاروقی نے لکھا کہ ’ہم سوئف ریٹارٹ کے ساتھ تیار ہیں اور اس مرتبہ آپ کو حملے کی پہلی ہی کوشش میں نشانہ بنایا جائے گا۔ انشا اللہ۔‘
یہ ٹویٹ انھی الفاظ کے ساتھ دیگر صحافیوں نے بھی پوسٹ کی ہے۔