،تصویر کا ذریعہEmmanuel Lafont/ BBC
- مصنف, اینا بریسینن
- عہدہ, بی بی سی فیوچر
جدید دور میں عمارتیں 50 سال کے عرصے کے لیے تعمیر کی جاتی ہیں۔ لیکن قدیم طرزِ تعمیر اور انجینیئرنگ میں لکڑی سے تعمیر ہونے والا ایک شہر 1600 سال گُزرنے کے باوجود آج بھی پانی پر قائم و دائم ہے۔
وینس کا ہر رہائشی اور مقامی اس بات سے واقف ہے کہ یہ شہر ایک ایسے جنگل پر بنایا گیا ہے جو قدرتی جنگل سے قدرِ مختلف ہے۔ مارچ 2025 میں یہ شہر 1604 سال کا ہوگیا۔
یہ شہر لاکھوں درختوں کے تنوں کے ایک ڈھیر پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کام کے لیے استعمال کیے جانے والے درختوں میں لارچ یعنی صنوبر، اوک یعنی بلوط، الڈر یعنی بید، پائن یعنی دیودار، سپروس یعنی سفیدہ اور ایلم (ایلم نامی درخت جس کے پتے داندار اور کھردرے ہوتے ہیں) نامی درختوں کے 3.5 میٹر (11.5 فٹ) سے لے کر 1 میٹر (3 فٹ) سے بھی کم لمبائی کے تنوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ طبیعیات اور فطرت کی قوتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انجینیئرنگ کا ایک حقیقی عجوبہ ہے۔
زیادہ تر جدید تعمیراتی ڈھانچوں میں مضبوط کنکریٹ اور سٹیل وہی کام کرتے ہیں جو صدیوں پہلے استعمال کیے جانے والی درختوں کے تنے کر رہے ہیں۔ لیکن ان کی طاقت کے باوجود آج بہت کم بنیادیں وینس کی طرح طویل عرصے تک قائم رہ سکتی ہیں۔
سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ کی ای ٹی ایچ یونیورسٹی میں جیو میکانکس اور جیو سسٹمز انجینیئرنگ کے پروفیسر الیگزینڈر پوزرین کہتے ہیں کہ ’کنکریٹ یا سٹیل کے تعمیراتی ڈھانچے آج 50 سال تک قائم رہنے کی ضمانت کے ساتھ ڈیزائن کیے گئے ہیں۔
’یقیناً وہ لمبے عرصے تک قائم رہ سکتے ہیں لیکن جب ہم گھر اور صنعتی ڈھانچے تعمیر کرتے ہیں تو معیار زندگی 50 سال ہی ہوتا ہے۔‘
وینس کی تعمیر کی کہانی
صرف ایک بار اپنے کیریئر کے آغاز میں پوزرین کو اسرائیل میں بہائی مندر کی تعمیر کے لیے 500 سال کی ضمانت دینے کا کہا گیا۔
وہ اس بات کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں حیران رہ گیا کیوں کہ یہ غیر معمولی تھا۔ میں واقعی ڈر گیا تھا اور وہ چاہتے یہ تھے کہ میں اس بات کی ضمانت بھی دوں اور ایک تحریر پر دستخط بھی کروں کے واقعی یہ عمارت 500 سال تک قائم رہی گی۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے تل ابیب میں اپنے باس ایک نہایت تجربہ کار بزرگ انجینیئر کو بلایا اور میں نے کہا ’ہم کیا کرنے جا رہے ہیں؟ وہ 500 سال چاہتے ہیں۔ وہ میری بات سُن کر حیران رہ گئے اور چونک کر بولے ’500 سال؟‘۔ اس کے بعد اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم میں سے کوئی بھی وہاں نہیں جائے گا۔‘
وینس کی صدیوں پرانی یہ حیرت انگیز طرزِ تعمیر بہت ہی دلچسپ ہے۔ کسی کو بھی اس بات کا یقین اور اندازہ تک نہیں ہے کہ اس شہر کے نیچے کتنے درختوں کے تنے موجود ہیں، لیکن اس بات کا علم ضرور ہے کہ وینس کے مشہورِ زمانہ ‘ریالٹو پل’ کی بنیادوں میں 14،000 انتہائی مضبوط درختوں کے تنہ موجود ہیں، اسی طرح ’سان مارکو بیسلیکا‘ کے نیچے 10،000 اوک یعنی بلوط کے درخت کے تنے ہیں جو 832 عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا۔

،تصویر کا ذریعہEmmanuel Lafont/ BBC
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
یونیورسٹی آف وینس میں انوائرمینٹل کیمسٹری اور ثقافتی ورثے کی پروفیسر کیٹیرینا فرانسسکا ایزو کہتی ہیں کہ ’میں وینس میں پیدا ہوئی اور یہیں پرورش پائی۔ بڑے ہو کر یہاں رہنے والے ہر فرد کی طرح میں بھی یہ بات جانتی تھی کہ وینس کی انتہائی دلفریب اور دلکش عمارتوں کے نیچے کیڈور (وینس کے پہاڑی علاقہ) میں پائے جانے والے درختوں کے تنے موجود ہیں۔
’لیکن مجھے جس بات کا علم نہیں تھا وہ یہ کہ ان درختوں کے تنوں کو شہر کے بسے سے پہلے یہاں تک کیسے پہنچایا گیا، ان کی گنتی کیسے کی گئی اور انھیں کیچڑ والی اس زمین میں گاڑنے کے لیے کس چیز سے ضرب لگائی گئی، اور نہ ہی یہ حقیقت معلوم ہو سکی تھی کہ بتیپالی (لفظی طور پر ‘پائل ہٹرز’، یعنی درختوں کے تنوں کو ضرب لگانے والے مزدور) ایک بہت اہم پیشہ تھا۔ یہاں تک کہ اس کام کے دوران مزدور چند مخصوص گیت بھی باآوازِ بلند گاتے تھے۔’
یہ بالکُل ویسے ہی گیت ہوا کرتے تھے کہ جیسے پاکستان اور انڈیا کے پنجاب میں کسان گندم کی کٹائی کے دوران ڈھول کی تھاپ پر گایا کرتے ہیں۔
بتیپالی (یعنی درختوں کے تنوں کو زمین میں گاڑنے کے لیے ضرب لگانے والے مزدور) اپنے ہاتھوں میں ہتھوڑے نما ایک اوزار کی مدد سے تنوں پر ضرب لگاتے اور یہ صرب ایک ایسے انداز میں لگائی جاتی کہ ایک کہ بعد ایک کی آواز آتی اور یہ کسی دھن کی مانند محسوس ہوتی اور اسی کے ساتھ وہ مزدور ایک قدیم قدیم گیت گاتے تھے، دل کو چھو لینے والی اس دھن جس میں وینس، اس کی جمہوری عظمت، اس کے کیتھولک عقیدے کی تعریف کی جاتی تھی اور اس وقت کے دشمن ترکوں کو ایک سخت پیغام دیا جاتا تھا۔
اتنا وقت گُزر جانے کے باوجود اب بھی اسی گیت میں سے ایک جملہ استعمال کیا جاتا ہے اور وینس کی ایک کہاوت میں کسی کو حسِ مزاح سے عاری کہنے کے لیے یہ کہا جاتا تھا کہ ’اس کا سر اتنا سخت اور وہ اتنا کُند ذہن ہے کہ اس سے درختوں کے تنے زمین میں دبائے جا سکتے ہیں۔‘
درختوں کے یہ تنے اس قدر پانی کے نیچے کیچڑ والی زمین میں دھنسے ہوئے تھے کے انھیں اس سے زیادہ نیچے زمین میں دھکیلنا مُمکن نہیں تھا۔ تعمیراتی ڈھانچے کے بیرونی کنارے سے شروع ہو کر بنیادوں کے مرکز کی طرف بڑھتے ہوئے، عام طور پر پیچ دار شکل میں نو تنے فی مربع میٹر میں ہوجود ہوتے تھے۔ اس کے بعد سروں کو ایک باقاعدہ سطح حاصل کرنے کے لیے موڑا جاتا۔
زمین میں گاڑے جانے والے درختوں کے تنوں کے اُوپر انھیں درختوں کی مدد سے حاصل کیے جانے والے تختے اور بیمز کا استعمال بھی کیا گیا۔ بیل ٹاورز کے معاملے میں 20 انچ موٹے تختے یا بورڈز کا استعمال کیا گیا تھا۔ دیگر عمارتوں کے لیے استعمال ہونے والے یہ تختے 8 انچ یا اس سے بھی کم تھے۔ اوک یعنی بلوط کے درخت نے سب سے زیادہ لچکدار لکڑی فراہم کی لیکن یہ سب سے قیمتی بھی تھی۔ (بعد میں اوک یعنی بلوط کے درخت کی لکڑی کا استعمال صرف بحری جہاز بنانے کے لیے کیا جاتا تھا)۔ بلوط کی لکڑی یا دیگر درختوں سے حاصل کی جانے والی لکڑی کی اس بنیاد کے اوپر پھر مزدور عمارت کی تعمیر کے لیے پتھر کا رکھتے تھے۔
جمہوریہ وینس نے جلد ہی اپنے جنگلات کی حفاظت شروع کر دی تاکہ تعمیر کے ساتھ ساتھ بحری جہازوں کے لیے کافی لکڑی فراہم کی جاسکے۔ اٹلی کی نیشنل کونسل فار ریسرچ کے انسٹی ٹیوٹ فار بائیو اکانومی کے ریسرچ ڈائریکٹر نکولا ماچیونی نے درختوں کی کاشت کے طریقہ کار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ‘وینس نے سلوی کلچر ایجاد کیا (سلوی کلچر یعنی پودوں کی کاشت اور نگہداشت یا اسے تحفظ جنگلات کی ایک شاخ اور شجر کاری بھی کہا جاتا ہے)۔
ماچیونی کے مطابق ’تحفظ کے یہ طریقے تحریر ہونے سے کئی سال پہلے استعمال میں رہے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وادی فیمی آج بھی ایک سرسبز جنگل سے ڈھکی ہوئی ہے۔ تاہم انگلستان جیسے ممالک کو 16 صدی کے وسط تک لکڑی کی قلت کا سامنا تھا۔‘

،تصویر کا ذریعہEmmanuel Lafont/ BBC
منفرد فن تعمیر
وینس واحد شہر نہیں ہے کہ جس کی بنیادیوں کا انحصار لکڑی یعنی درختوں کے تنوں پر ہے لیکن چند ایسے اہم اختلافات ہیں جو اسے منفرد بناتے ہیں۔ ایمسٹرڈیم ایک اور شہر ہے جو جزوی طور پر درختوں کے تنوں پر تعمیر کیا گیا ہے، یہاں اور بہت سے دیگر شمالی یورپی شہروں میں اسی طریقہ کار کا استعمال کیا گیا ہے کہ لکڑی کے ان تنوں کو پانی کے اندر زمین تہہ تک پہنچایا جاتا ہے، ان کی شکل لمبے ستون کی طرح، یا لکڑی کے میز کی لمبی ٹانگوں کی طرح کام کرتے ہیں۔
یونیورسٹی آف الینوائے میں آرکیٹیکچر کے پروفیسر تھامس لیسلی کہتے ہیں کہ ’اگر چٹان سطح کے قریب ہو تو یہ ٹھیک ہے۔ لیکن بہت سے علاقوں میں، بنیاد ایک لکڑی کے تنے کی پہنچ سے باہر ہے۔ امریکہ میں جھیل مشی گن کے کنارے پر جہاں لیسلی رہتے ہیں پانی کے نیچے زمین سطح سے 100 فٹ نیچے ہوسکتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ‘اتنے بڑے درخت تلاش کرنا مشکل ہے۔ 1880 کی دہائی میں شکاگو کی کہانیاں موجود تھیں کہ جہاں انھوں نے ایک درخت کے تنے کو دوسرے درخت کے اوپر رکھنے کی کوشش کی جس کا آپ تصور کرسکتے ہیں مگر یہ طریقہ کارآمد ثابت نہیں ہوتا تھا۔ آخر کار انھیں احساس ہوا کہ آپ مٹی کی رگڑ پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔‘
یہ اصول مٹی کو مضبوط بنانے کے خیال پر مبنی ہے زیادہ سے زیادہ تنوں میں چپک کر تنوں اور مٹی کے درمیان کافی رگڑ پیدا کرکے۔ لیسلی کہتے ہیں کہ ’اس میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ فزکس کا استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی خوبصورتی یہ ہے کہ آپ عمارتوں کو برقرار رکھنے کے لیے مزاحمت فراہم کرنے کے لیے مٹی کی سیال فطرت کا استعمال کر رہے ہیں۔‘
لیسلی کا کہنا ہے کہ ’اس کی تکنیکی اصطلاح ہائیڈرواسٹک پریشر ہے جس کا بنیادی طور پر مطلب یہ ہے کہ اگر بہت سے درختوں کے تنوں کو ایک جگہ پر مٹی میں داخل کیا جائے تو مٹی ان تنوں کو ’مضبوطی سے پکڑ‘ لیتی ہے۔‘
اس تکنیک کا ذکر پہلی صدی کے رومن انجینیئر ویٹرویئس نے کیا تھا۔ رومی پلوں کی تعمیر کے لیے زیرِ آب لکڑی کے تنوں کا استعمال کرتے تھے۔ چین میں پانی پر بند لگائے جانے کے لیے بھی لکڑی کے دروازوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔
پوزرین کے مطابق ایزٹیک انھیں میکسیکو سٹی میں استعمال کرتے تھے جب تک کہ ہسپانوی نہیں آئے انھوں نے قدیم شہر کو توڑ دیا اور اوپر اپنا کیتھولک گرجا گھر تعمیر کیا۔

،تصویر کا ذریعہEmmanuel Lafont/ BBC
پانی میں ڈیڑھ ہزار سال سے زیادہ عرصے کے بعد، وینس کی بنیادیں قابل ذکر طور پر لچکدار ثابت ہوئی ہیں۔ تاہم وہ نقصان سے محفوظ نہیں ہیں۔
دس سال قبل پاڈووا اور وینس کی یونیورسٹیوں (جنگلات سے لے کر انجینیئرنگ اور ثقافتی ورثے تک کے شعبوں) کی ایک ٹیم نے شہر کی بنیادوں کی حالت کی جانچ پڑتال کی، جس کا آغاز 1440 میں ایلڈر کے لکڑی کے تنوں پر تعمیر ہونے والے فریری چرچ کے بیل ٹاور سے ہوا۔
فریری بیل ٹاور اپنی تعمیر کے بعد سے ہر سال 1 ملی میٹر (0.04 انچ) ڈوب رہا ہے یعنی پانی میں دھنس رہا ہے، مجموعی طور پر 60 سینٹی میٹر (تقریباً 24 انچ) تک۔ شہر کی بنیادوں کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کا حصہ رہنے والی میکیونی کہتی ہیں کہ گرجا گھروں اور عمارتوں کے مقابلے میں بیل ٹاورز کا وزن زیادہ ہوتا ہے اور اسی وجہ سے وہ تیزی سے ڈوبتے ہیں۔
کیٹیرینا فرانسسکا ایزو میدان، بنیادی کھدائی، گرجا گھروں کے نیچے، بیل ٹاورز اور نہروں کے کنارے سے لکڑی کے نمونے جمع کرنے اور تجزیہ کرنے پر کام کر رہی تھیں، جنھیں اس وقت خالی کیا جا رہا تھا اور صاف کیا جا رہا تھا۔ انھوں نے کہا کہ انھیں خشک نہر کے نچلے حصے پر کام کرتے وقت محتاط رہنا پڑا۔
تحقیق کرنے والی ٹیم کے سامنے یہ آیا کہ انھوں نے جن ڈھانچوں کی تحقیقات کی، اس میں بُری خبر یہ تھی کہ ان میں لکڑی کو نقصان پہنچا تھا، لیکن اقھی خبر یہ تھی کہ پانی، کیچڑ اور لکڑی سب مل کر ایک دوسرے کو سہارا دیے ہوئے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
پانی میں لکڑی گل سڑ کیوں نہیں جاتی؟
انھوں نے اس عام خیال کو مسترد کر دیا کہ شہر کے نیچے لکڑی گل سڑ نہیں جاتی کیونکہ آکسیجن کی عدم موجودگی میں بھی لکڑی پر بیکٹیریا حملہ کرتے ہیں۔
لیکن بیکٹیریا کی کارروائی پھپھوندی اور کیڑوں کے عمل کے مقابلے میں بہت سست ہے جو آکسیجن کی موجودگی میں کام کرتے ہیں۔ پانی بیکٹیریا کے ذریعے خالی ہونے والے خلیات کو بھر دیتا ہے جس سے لکڑی کے تنے اپنی شکل برقرار رکھتے ہیں۔
لہٰذا اگر لکڑی کے تنوں کو نقصان پہنچ بھی جائے تو لکڑی، پانی اور کیچڑ کا پورا نظام شدید دباؤ میں بھی صدیوں تک ایک ساتھ کارآمد رہتا ہے۔
ایزو کہتے ہیں کہ ’فکر کرنے کی کوئی بات ہے؟ ہاں اور نہیں۔ لیکن ہمیں اب بھی اس قسم کی تحقیق کو جاری رکھنے پر غور کرنا چاہیے۔‘ 10 سال پہلے نمونے لینے کے بعد سے انھوں نے نئے نمونے جمع نہیں کیے تھے جس کی بنیادی وجہ لاجسٹکس ہے۔
میکیونی کہتے ہیں کہ ’یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ بنیادیں مزید کتنے سو سال تک قائم رہیں گی۔ تاہم یہ تب تک جاری رہے گا جب تک ماحول ایک جیسا رہے گا۔ بنیاد کا نظام کام کرتا ہے کیونکہ یہ لکڑی، مٹی اور پانی سے بنا ہے۔
مٹی آکسیجن سے پاک ماحول پیدا کرتی ہے، پانی دونوں اس میں حصہ ڈالتے ہیں اور خلیوں کی شکل کو برقرار رکھتے ہیں اور لکڑی رگڑ فراہم کرتی ہے۔ ان تین عناصر میں سے کسی ایک کے بغیر، نظام تباہ ہو جاتا ہے۔
19 ویں اور 20 ویں صدی میں بنیاد کی تعمیر میں لکڑی کو مکمل طور پر سیمنٹ سے بدل دیا گیا تھا۔ حالیہ برسوں میں اگرچہ لکڑی کے ساتھ تعمیر کے ایک نئے رجحان نے بڑھتی ہوئی دلچسپی حاصل کی ہے جس میں لکڑی کی فلک بوس عمارتوں کا عروج بھی شامل ہے۔
لیسلی کا کہنا ہے کہ ’یہ اس وقت بہت اچھا مواد ہے اور واقعی اچھی وجوہات کی بنا پر۔ لکڑی ایک کاربن سنک ہے یہ بائیوڈی گریڈایبل ہے اور اس کی لچک کی بدولت اسے سب سے زیادہ زلزلے کے خلاف مزاحمت کرنے والے مواد میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔‘
میکیونی کہتے ہیں ’ہم آج کل پورے شہروں کو لکڑی پر تعمیر نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ ہم کرہ ارض پر بہت زیادہ تعداد میں ہیں۔ ہاں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مصنوعی مواد کے بغیر اور موٹروں کے بغیر، قدیم معماروں کو صرف زیادہ ذہین ہونا پڑتا تھا۔‘
پوزرین کا کہنا ہے کہ ’وینس لکڑی کی بنیادوں والا واحد شہر نہیں ہے لیکن یہ واحد شہر ہے جو اب بھی اس تکنیک کے ساتھ باقی ہے اور بے حد خوبصورت بھی ہے۔‘
’وہاں ایسے لوگ تھے جنھوں نے مٹی کے میکانکس اور جیو ٹیکنیکل انجینیئرنگ کا مطالعہ نہیں کیا تھا۔ اور پھر بھی انھوں نے کچھ ایسا تیار کیا جس کے بارے میں ہم صرف خواب دیکھ سکتے ہیں۔
’وہ حیرت انگیز انجینیئر تھے جنھوں نے ان تمام خاص حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بالکل صحیح کام کیا۔‘