،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, پیٹر ہاسکنز
- عہدہ, بزنس رپورٹر
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان سمیت متعدد ممالک پر اضافی ٹیرف یا محصول عائد کیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹس یعنی بازارِ حصص میں بھونچال کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔
پاکستان سٹاک ایکسچینج میں نئے ہفتے کے پہلے کاروباری روز میں شدید مندی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ہنڈرڈ انڈیکس میں 6287 پوائنٹس کی تاریخی کمی کے بعد مارکیٹ میں کاروبار کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا۔ پاکستانی تجزیہ کاروں کی مطابق حصص مارکیٹ میں پوائنٹس کے تناسب سے یہ ایک روز میں ہونے والی سب سے بڑی کمی ہے۔
پیر کے روز سٹاک ایکسچینج میں کاروبار کا آغاز منفی زون میں ہوا جب انڈیکس 1700 پوائنٹس منفی کے ساتھ اوپن ہوا اور اس کے بعد اس میں مسلسل کمی ریکارڈ کی گئی۔ سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاروں کی جانب سے حصص کی فروخت کا رجحان غالب ہے۔
مارکیٹ تجزیہ کار اس مندی کی وجہ عالمی سطح پر سٹاک مارکیٹوں میں کمی کو قرار دیتے ہیں جو امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک پر ٹیرف عائد کیے جانے کی وجہ سے مندی کا شکار ہوئیں۔
اسی طرح یورپ اور ایشیائی سٹاک مارکیٹس بھی شدید گراوٹ کا شکار ہیں اور انھیں شدید مندی کا سامنا ہے۔
پیر کے روز شنگھائی سے ٹوکیو اور سڈنی سے ہانگ کانگ تک تمام بڑی سٹاک مارکیٹس شدید مندی کا شکار ہوئیں۔ ایشیا کی سٹاک مارکیٹس سے وابستہ ایک تجزیہ کار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ خون کی ہولی ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایشیا ایک ایسا خطہ ہے جو عالمی سطح پر فروخت ہونے والی بہت سی اشیا تیار کرتا ہے اور انھیں برآمد کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایشیائی ممالک صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکہ درآمد ہونے والی اشیا پر ٹیرف یا اضافی ٹیکس عائد ہونے سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
ایشیا سے تعلق رکھنے والے معاشی ماہرین خاص طور پر ان خدشات کے بارے میں بھی حساس ہیں کہ حالیہ عالمی تجارتی جنگ دنیا کی سب سے بڑی معیشت یعنی امریکہ میں سست روی یا یہاں تک کہ کساد بازاری کا باعث بن سکتی ہے۔
جاپان کا Nikkei 225 انڈیکس 7.8 فیصد، آسٹریلیا کا ASX 200 انڈیکس 4.2 فیصد اور جنوبی کوریا کا Kospi انڈیکس 5.6 فیصد کی کمی پر بند ہوا۔ جبکہ چین، ہانگ کانگ اور تائیوان کی سٹاک مارکیٹوں میں مندی کی صورتحال اس سے ملتی جلتی تھی۔ شنگھائی کمپوزٹ مارکیٹ 7.3 فیصد اور تائیوان ویٹڈ انڈیکس 9.7 فیصد کم پر بند ہوا۔
لندن سٹاک ایکسچینج گروپ کے ذیلی ادارے ‘ایف ٹی ایل ای رسل’ سے منسلک تجزیہ کار جولیا لِی کا کہنا ہے کہ ‘ٹیرف افراط زر اور کساد بازاری سے متعلق خدشات پر پورا اُتر رہے ہیں۔’
‘گولڈمین سیش’ نے اب پیشن گوئی کی ہے کہ اگلے 12 مہینوں میں امریکہ کے کساد بازاری کا شکار ہونے کا امکان 45 فیصد تک ہے۔ اپنی سابقہ پیش گوئی میں یہ امکان 35 فیصد پر تھا۔
ٹرمپ کی جانب سے اضافی ٹیرف عائد کیے جانے کے اعلان کے بعد سے وال سٹریٹ سے منسلک دیگر فرموں نے بھی اپنی کساد بازاری سے متعلق پیش گوئیوں پر نظر ثانی کی ہے۔ جے پی مورگن کی پیش گوئی ہے کہ اب امریکہ اور عالمی معیشتوں میں 60 تک گراوٹ کا امکان ہے۔
مستقبل میں امریکی معیشت میں نمایاں سست روی کا ایشیائی برآمدات پر بڑا گہرا اثر پڑے گا کیونکہ امریکہ خطے میں تیار ہونے والی مصنوعات اور اشیا کے لیے ایک اہم منڈی ہے۔
،تصویر کا ذریعہAFP
سرمایہ کاری فرم ‘وینگارڈ’ سے منسلک ایشیا پیسیفک کے چیف اکانومسٹ کیان وانگ کا کہنا ہے کہ ‘امریکی ٹیرف میں اضافے کا نقصان ایشیا کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اگرچہ بات چیت کی کسی حد تک گنجائش تو موجود ہے مگر یہ واضح ہے بڑے ٹیرف عائد کرنے والی حکومت (ٹرمپ انتظامیہ) مستقبل قریب میں کہیں نہیں جانے والی۔’
انھوں نے مزید کہا کہ ‘یہ عالمی اور ایشیائی معیشت کے لیے منفی ہے، خاص طور پر چھوٹی معیشتوں کے لیے۔ قلیل مدتی اور طویل مدتی دونوں سطحوں پر۔’
ایشیا میں ویتنام سے لے کر بنگلہ دیش اور پاکستان تک کے ممالک برآمدی منڈی کے طور پر امریکہ پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔
گذشتہ ہفتے ٹرمپ کی جانب سے ویتنام پر 46 فیصد، بنگلہ دیش پر 37 فیصد جبکہ پاکستان پر 29 فیصد اضافی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ کئی بڑے امریکی برانڈز کی فیکٹریاں ویتنام میں ہیں جیسا کہ ‘نائیکی’۔
بنگلہ دیش گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق بنگلہ دیش ہر سال 8.4 ارب ڈالر کی ملبوسات امریکہ کو برآمد کرتا ہے۔
امریکی محکمہ تجارت میں بین الاقوامی تجارت کے سابق انڈر سیکریٹری فرینک لاون کا کہنا ہے کہ ‘ایشیا کو اس ہنگامے کی وجہ سے زیادہ نقصان پہنچنے کا امکان ہو سکتا ہے کیونکہ ایشیا دیگر منڈیوں کے مقابلے امریکہ کو زیادہ برآمدات بھیجتا ہے۔’
یاد رہے کہ گذشتہ جمعہ کو عالمی سٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان مزید گہرا اس وقت ہوا جب چین کی جانب سے بھی امریکی مصنوعات پر جوابی ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا گیا۔
امریکی سٹاک مارکیٹ کے تینوں بڑے انڈیکس میں 5 فیصد سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی جبکہ ایس اینڈ پی 500 مجموعی طور پر چھ فیصد کر گِرا، اور یہ 2020 کے بعد سے امریکی سٹاک مارکیٹ کے لیے بدترین لمحہ رہا۔
اسی طرح برطانیہ میں ‘ایف ٹی ایس ای 100’ تقریباً پانچ فیصد تک گِرا، یہ گذشتہ پانچ برسوں میں سب سے بڑی کمی تھی۔ جبکہ جرمنی اور فرانس کی سٹاک مارکیٹس کو بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا رہا۔
یاد رہے کہ ٹرمپ کی جانب سے حالیہ اعلانات کے بعد عالمی سٹاک مارکیٹوں نے کھربوں ڈالر کی اپنی قدر کھوئی ہے۔
اینابیل لیانگ کی اضافی رپورٹنگ