،تصویر کا ذریعہBC/Jamie Niblock
برطانیہ کے ایک میوزیئم میں موجود ایک کتاب کی جلد کے بارے میں حال ہی میں ایک عجیب انکشاف ہوا۔ اس کتاب کی جلد انسانی کھال سے بنائی گئی تھی جو ایک ایسے بدنامِ زمانہ قاتل کی تھی جسے دو سو سال قبل سزا کے طور پر پھانسی دی گئی تھی۔
یہ واقعہ 1827 کا ہے جب ولیئم کورڈر کو ایک خاتون کے قتل کے الزام میں سزا دی گئی تھی۔ اس جرم نے برطانیہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
تاہم حال ہی میں موئزے ہال میوزیئم کے منتظمین کو اس بات کا علم ہوا کہ ان کے پاس موجود ایک کتاب کی جلد اسی قاتل کی کھال سے تیار ہوئی تھی۔ یہ علم ہوا ہے کہ اس کتاب کا عطیہ ایک ایسے خاندان نے کیا تھا جن کا تعلق قاتل کے جسم کا جائزہ لینے والے سرجن سے تھا۔
تو ہم اس قاتل اور اس جرم کے بارے میں کیا جانتے ہیں اور ایک قاتل کی کھال کو کتاب میں کیوں محفوظ کیا گیا؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ولیم اور ماریا
22 سال کی عمر میں پولسٹیڈ قصبے کے رہائشی ولیئم کو ماریا مارٹن سے محبت ہو گئی تھی۔ ماریا کی عمر 24 سال تھی جو اپنے بیمار والد، سوتیلی والدہ، بہن اور ایک بیٹے کے ساتھ رہتی تھیں۔
1827 میں ولیئم نے ماریا کے ساتھ فرار ہونے کا منصوبہ بنایا اور ماریا سے کہا کہ وہ قریبی کھیتوں میں موجود گودام میں ان سے ملیں۔ ولیئم نے ماریا سے کہا کہ وہ دونوں فرار ہو جائیں گے۔
لیکن اس دن کے بعد ماریا اور ولیئم دونوں ہی غائب ہو گئے۔ بعد میں ولیئم کا ایک خط ماریا کے خاندان کو موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ دونوں بھاگ گئے تھے۔
حقیقت کچھ اور تھی۔ ولیئم لندن کے قریب تھا اور ماریا اسی مقام پر دفن تھی جہاں ولیئم نے اسے بلایا تھا۔ ماریا کی گردن میں گولی ماری گئی تھی۔
تقریبا ایک سال بعد ماریا کی سوتیلی والدہ نے ایک خواب میں دیکھا کہ ماریا اس گودام میں مر چکی ہے۔ ماریا کے والد نے اس خواب کو سن کر گودام میں کھدائی کی تو انھیں ماریا کی باقیات ملیں۔
یوں ولیئم کی تلاش کا آغاز ہوا اور جلد ہی ایک اخبار کے مدیر نے دعوی کیا کہ وہ ایک ولیئم نامی شخص کو جانتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
موئزے ہال میوزیئم کے ڈان کلارک بتاتے ہیں کہ ’ولیئم فرار تھا لیکن تنہا بھی تھا اور ایسے میں اس نے بیوی کے لیے اشتہار دیا۔‘ یوں ولیئم گرفتار ہو گیا لیکن اس نے حکام کی پوچھ گچھ کے جواب میں ماریا کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا۔
ولیئم کورڈر کے خلاف قتل کے دس الزامات عائد ہوئے اور یہ سب ماریا کے قتل کے بارے میں تھے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اسے سزا ہو۔ ولیئم نے دعوی کیا کہ ماریا نے خود کو گولی ماری تھی۔ یعنی وہ ایک مردہ خاتون کو ہی مورد الزام ٹھہرانے لگا۔
دو دن چلنے والے مقدمہ میں ولیئم کو مجرم قرار دیا گیا جس کے بعد اعتراف جرم میں اس نے تسلیم کیا کہ بحث کے دوران اس نے غلطی سے گولی چلا دی تھی۔
جیل کے باہر سر عام دی جانے والی پھانسی کی سزا کو دیکھنے کے لیے سات ہزار سے دس ہزار لوگوں کا مجمع اکھٹا ہوا۔ یہ 11 اگست 1827 کا دن تھا۔ بعد میں ایک جم غفیر نے ولیئم کی لاش کو بھی دیکھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
ڈان کلارک بتاتے ہیں کہ ’اتنا رش تھا کہ کہا جاتا ہے کہ حکام کو اسے جیل سے باہر لانے کے لیے ایک سوراخ کرنا پڑا تھا۔‘
ماریا کی قبر اور پولسٹیڈ کا قصبہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہا۔ اس قتل میں دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ کئی کتابوں، ڈراموں اور موسیقی تک میں اس کا تذکرہ ہوا۔
ولیئم کے چہرے کا موت کے بعد لیا جانے والا خاکہ، جسے ’ڈیتھ ماسک‘ کہتے ہیں، بھی موئزے میوزیئم میں موجود ہے۔ لوگ آج بھی اس قاتل کا چہرہ قریب سے دیکھ سکتے ہیں۔
بہت سال تک ولیئم کی ہڈیوں کا ڈھانچہ ویسٹ سفولک ہسپتال میں طب کے طالب علموں کو انسانی جسم کی تعلیم دینے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ تاہم بعد میں دو کتابیں بھی ملیں جن کی جلد میں ولیئم کی کھال استعمال ہوئی تھی۔ یہ سب اب اسی میوزیم میں موجود ہیں۔
ان میں سے ایک کتاب قتل کے مقدمے کے بارے میں ہے جسے ایک صحافی نے تحریر کیا۔ اس کا عنوان ہے ’ڈبلیو کورڈر کا مقدمہ۔‘
کتاب کے اندر اس سرجن کی تحریر ہے جس نے ولیئم کورڈر کے جسم کا طبی معائنہ کیا تھا۔ اس تحریر کے مطابق انھوں نے ہی سنہ 1838 میں ولیئم کی کھال کو اس کتاب کی جلد بنانے کے لیے استعمال کیا۔