بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف بلوچستان نیشنل پارٹی کے دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ شہر کی جانب مارچ کی اجازت نہ دینے کے خلاف اتوار کو بلوچستان کے مزید علاقوں میں شاہراہوں کو بطور احتجاج بند کیا گیا ہے۔
کوئٹہ شہر میں سریاب کے علاقے میں شاہراہوں کو بند کرنے پر پولیس اور مظاہرین کی درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کے علاوہ گرفتاریاں بھی کی گئیں۔
دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ کی جانب اجازت نہ دینے کے خلاف بلوچستان میں پیر کو بی این پی کی جانب سے شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دی گئی ہے۔
دھرنے کے شرکا کی جانب سے مطالبات سے پیچھے نہ ہٹنے اور حکومت کی جانب سے مطالبات کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے جو شاہراہیں بند ہیں اس سے بلوچستان میں عام لوگوں کو شدید پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سریاب میں جھڑپیں اور گرفتاریاں
گذشتہ نو روز سے بلوچستان کے ضلع مستونگ کے علاقے لکپاس پر جاری دھرنے کے شرکا کو مطالبات تسلیم نہ ہونے پر اتوار کے روز کوئٹہ کی جانب مارچ کرنا تھا لیکن وہ رکاوٹوں کی وجہ سے وہاں سے نہیں نکل سکے۔
بی این پی کے رہنما اختر حسین لانگو نے بتایا کہ علی الصبح چار بجے پولیس اور دیگر سکیورٹی اہلکاروں نے دھرنے کے شرکا کا گھیراؤ کیا جبکہ کوئٹہ-کراچی شاہراہ پر مستونگ شہر اور لکپاس کے درمیان اور کوئٹہ تفتان شاہراہ پر مختلف علاقوں میں پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات کی گئی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے فوٹو گرافر بنارس خان ان کیمرا مینز میں شامل تھے جنھوں نے صبح دھرنے کے مقام تک جانے کی کوشش کی لیکن پولیس کے اہلکاروں نے ان کو لکپاس ٹنل سے آگے جانے نہیں دیا۔
بنارس خان نے بتایا کہ پہلے کے مقابلے ٹنل کو آج کنٹینروں سے مکمل بھر دیا گیا تھا جبکہ گردونواح میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری تعینات تھی۔
دھرنے کی شرکا کو کوئٹہ کی جانب اجازت نہ دینے کے خلاف بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ نے یہ اعلان کیا کہ پارٹی کے کارکن جہاں جہاں بھی ہیں وہاں شاہراہوں کو بند کریں۔
اس اعلان کے بعد پارٹی کے کارکنوں کے کوئٹہ میں سریاب کے مختلف علاقوں میں شاہراہوں کو بند کیا جن کے خلاف پولیس نے کاروائی کی۔ شام تک مختلف علاقوں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہیں۔
مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کرنے کے علاوہ گرفتاریاں بھی کی گئیں۔ گرفتار ہونے والے متعدد مطاہرین کو پولیس اہلکار تشدد کا نشانہ بھی بناتے رہے۔
سونا خان کے علاقے میں ان جھڑپوں کے دوران دو درجن سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما ثنا بلوچ نے بتایا کہ کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی پُرامن مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے۔
شاہراہ پر خندقوں اور رکاوٹوں کی وجہ سے کوئٹہ – کراچی شاہراہ پر لوگوں کی مشکلات
ماضی میں مظاہروں کو روکنے کے لیے بلوچستان میں شاہراہوں پر گاڑیاں کھڑی کی جاتی رہی ہیں لیکن اس مرتبہ سرکاری حکام کی جانب سے ان پر بڑے بڑے گڑھے بھی کھودے گئے۔
کوئٹہ-کراچی شاہراہ پر کوئٹہ اور مستونگ کے اضلاع کی سرحد پر ایک بڑا گڑھا کھودنے کے علاوہ لک پاس کی ٹنل کی دوسری جانب بھی گڑھا کھودا گیا ہے جبکہ لکپاس اور دھرنے کے مقام سے کوئٹہ شہر تک شاہراہ پر گاڑیوں کی آمد و رفت کو روکنے کے لیے کنٹینرز بھی کھڑے کر دیے گئے ہیں۔
ان رکاوٹوں کی وجہ سے آج دن بھر کوئٹہ کراچی شاہراہ ویران دکھائی دیتا رہا اور گاڑیوں کی بندش کی وجہ سے قرب و جوار کے لوگوں کو آمدورفت میں پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
شاہراہ پر پیدل چلنے والے اور موٹر سائیکلوں پر سفر کرنے والے لوگوں کا کہنا تھا کہ کوئٹہ اور لکپاس کے درمیان مختلف کلیوں سے جو متبادل راستے ہیں ان پر بھی گڑھے کھودے گئے ہیں تاکہ دھرنے کے شرکا وہاں سے کوئٹہ شہر کی جانب نہیں آسکیں۔
اسی طرح کوئٹہ اور مستونگ کے درمیان دشت کے علاقے میں بھی گاڑیوں کی آمدورفت کو روکنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔
جہاں ان رکاوٹوں کی وجہ سے دو اہم شاہراہوں کوئٹہ کراچی ہائی وے اور کوئٹہ کراچی تفتان ہائی وے پر لوگوں کو سفر میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہاں 9 روز سے پھنسی ہوئی مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیور بھی ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔
دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ کی جانب اجازت نہ دینے کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان
بلوچستان نیشنل پارٹی نے دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ کی جانب اجازت نہ دینے کے خلاف پیر کے بلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دی ہے۔
اس سلسلے میں کوئٹہ پریس کلب میں پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے سینیئر نائب صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ خواتین کی گرفتاری کے خلاف بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام جو دھرنا دیا جارہا ہے وہ پرامن ہے لیکن حکومت اس کے شرکا کو کوئٹہ کی جانب آنے کی اجازت نہیں دے رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر لوگوں کو اپنے جائز مطالبات کو منوانے کے لیے پرامن احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی تو پھر لوگوں کے پاس احتجاج کا باقی کونسا راستہ رہ جائے گا۔جو اقدامات کیئے جارہے ہیں اس سے یہ لگتا ہے حکومت معاملات کا پر امن حل نہیں چاہتی ہے۔
ادھر لکپاس میں دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ ’ریاست نے ہمیں کچلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، مگر ہم سر جھکانے والے نہیں۔ یہ دھرنا ہر صورت جاری رہے گا اور اب ہم پورے بلوچستان کو مزاحمت کا مرکز بنائیں گے۔‘
دوسری جانب سرکاری حکام نے بلوچستان نیشنل پارٹی پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کی پارٹی کی قیادت ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہی ہے۔
گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے لچک کا مظاہرہ کیا گیا لیکن بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا ہے۔
درایں اثنا ترجمان نے ایکس پر بی این پی کے لانگ مارچ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سردار اختر مینگل نے اگر کوئٹہ کی جانب مارچ کیا تو انھیں گرفتاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔