- مصنف, یاسر عثمان
- عہدہ, بی بی سی ہندی
یہ اس وقت کا دکر ہے جب ہالی وڈ سٹوڈیو سسٹم سے متاثر ہو کر انڈین سینیما کے منظم سٹوڈیو سسٹم میں دراڑیں پڑ گئیں اور پربھات فلم کمپنی اور بومبے ٹاکیز جیسے بڑے فلم سٹوڈیو بند ہو گئے۔ اور پھر دو اور بڑے سٹوڈیو نکل کر سامنے آئے۔
وی شانتا رام کا راج کمل کالا مندر اور ششدھر مکھرجی کا فلمستان۔ یہ دونوں سٹوڈیو بھی راج کپور کے ’آر کے سٹوڈیوز‘ کی طرح ایک شخص کے تخلیقی خیال پر مبنی تھے۔
جی ہاں آج ہم بات کریں گے فلمستان کے بارے میں، جسے شاید سنیما کی تاریخ میں اتنا یاد نہیں کیا جاتا جتنا اس کا حصہ رہا ہے۔
’فلمستان‘ جس کی فلموں کا ایک ہی مقصد تھا، تفریح اور صرف تفریح۔
اس سے قبل ہر سٹوڈیو کی اپنی الگ پہچان تھی۔ جہاں پربھات فلم کمپنی نے افسانوی اور حب الوطنی کی کہانیوں پر مبنی فلمیں بنائیں وہیں بومبے ٹاکیز نے سماجی مسائل کو تفریحی انداز میں پیش کیا۔
اس وقت جب آزادی کی ایک طویل جدوجہد کے بعد انڈیا آزاد ہوا تو جب فلمیں بنیادی طور پر دیہات، سوشلزم اور حب الوطنی جیسے موضوعات پر بنائی جاتی تھیں تاہم ایسے میں فلمستان نے ایک الگ راستہ اختیار کیا۔
انھوں نے ہر قسم کی فلمیں بنائیں لیکن ہر فلم کا ایک ہی مقصد ہوتا تھا اور وہ تھا تفریح۔
رومانس، رقص، موسیقی، سٹائلش کپڑے، شہر کی کہانیاں اور نئے ستاروں کو متعارف کروانا۔ ان تمام چیزوں کی بنیاد جن کے لیے آج بالی وڈ جانا جاتا ہے فلمستان میں رکھی گئی۔
سشادھر مکھرجی: بالی وڈ کے پہلے ’سٹار میکر‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
انارکلی، پیئنگ گیسٹ، شہید، ناگن جیسی بلاک بسٹر فلمیں اسی سٹوڈیو سے بن کر نکلیں۔
دلیپ کمار، دیو آنند، شمی کپور، پردیپ کمار، سادھنا، وجنتی مالا جیسے فلمی ستاروں کی ابتدائی ہٹ فلمیں فلمستان سے ہی تھیں۔
فلمستان نے بہت کامیاب سکرین رائٹر متعارف کروائے اور ناصر حسین، نتن بوس اور رمیش سہگل کے کیریئر کو بھی بلندیوں پر پہنچایا۔
فلمی افق پر روشن سپر سٹارز کو بنانے والوں کے نام اکثر پس منظر میں ہی گم رہتے ہیں۔ پردے کے پیچھے فلمستان کے سربراہ سشادھر مکھرجی بھی ایسی ہی ایک شخصیت تھے جنھوں نے دلیپ کمار، دیو آنند، پردیپ کمار، وجنتی مالا اور شمی کپور جیسے سپر سٹارز کا کیریئر بنایا اور انھیں آسمان کی بلندیوں تک لے گئے۔
صحیح معنوں میں وہ بالی وڈ کے پہلے ’سٹار میکر‘ تھے۔
فلمستان کیسے بنا؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
1940 میں جب دیویکا رانی نے بمبے ٹاکیز کی باگ ڈور سنبھالی تو جلد ہی سٹوڈیو کا ماحول بدل گیا اور واضح دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں۔
اس دوران وہاں دھڑے بندی تیز ہوگئی اور ہمانشو رائے کے قریبی ساتھی ششدھر مکھرجی نے بغاوت کر دی۔
ان کے ساتھ بمبے ٹاکیز کے سب سے بڑے سٹار اشوک کمار بھی تھے جو سشادھر کے بہنوئی بھی تھے۔ سٹوڈیو کی سب سے کامیاب فلم ’قسم‘ کے ہدایت کار بگیان مکھرجی بھی ان کے ہمراہ شامل ہو گئے۔
یہ تینوں اپنے ساتھ کچھ اور لوگوں کو لے کر سٹوڈیو سے نکل گئے۔ بمبے ٹاکیز اس دھچکے سے کبھی نہیں نکل سکا اور چند سال بعد بند ہو گیا۔
لیکن 1943 میں سشادھر مکھرجی نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ایک نیا سٹوڈیو فلمستان شروع کیا۔
پہلے یہاں ’شاردا‘ سٹوڈیو ہوا کرتا تھا، جو آگ لگنے سے تباہ ہوگیا۔ فلمستان نے وہی جگہ ممبئی کے گرگاؤں ویسٹ میں لی۔ تقریباً پانچ ایکڑ پر پھیلا یہ اسٹوڈیو وقت کی تباہ کاریوں کو سہتے ہوئے آج بھی موجود ہے۔
اس میں سات شوٹنگ فلور، ایک شیو مندر اور ایک سرسبز و شاداب باغ بھی ہے، جسے آپ نے ہزاروں فلموں میں دیکھا ہوگا۔
فلمستان کے مرکزی ستون سشادھر مکھرجی تھے، ہدایت کار گیان مکھرجی تھے اور معروف سٹار اشوک کمار تھے۔ اس کے مالیاتی انتظام کی ذمہ داری چننی لال کوہلی کو دی گئی جو بمبئی ٹاکیز سے ان کے ساتھ آئے تھے اور عظیم موسیقار مدن موہن کے والد تھے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
فلمیں بنانے کا ماڈل زیادہ تر بمبے ٹاکیز سے لیا گیا تھا۔ فلمستان کی پہلی فلم ’چل چل رے نوجوان‘ (1944) تھی جس کی ہدایت کاری گیان مکھرجی نے کی تھی اور اس میں اشوک کمار اور نسیم بانو نے اداکاری کی تھی لیکن یہ پہلی فلم بری طرح فلاپ ہوگئی۔
فلمستان کی ابتدائی فلموں میں سے ایک اور فلم ’آٹھ دن‘(1946) تھی جو کامیاب نہیں ہوسکی لیکن اسے اس مناسبت سے یاد کیا جاتا ہے کہ اردو کے مشہور ادیب سعادت حسن منٹو نے نہ صرف اس کی تحریر میں حصہ ڈالا بلکہ اس میں فضائیہ کے ایک افسر کا کردار بھی ادا کیا۔
یہ وہ وقت تھا جب بنگالی سینیما کا سنہری دور اختتام کی جانب جا رہا تھا اور اس کے بڑے نام بمبئی فلم انڈسٹری کا رخ کر رہے تھے۔ فلمستان نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔
پہلے ڈائریکٹر نتن بوس آئے اور پھر ایک میوزک کمپوزر آئے جنھوں نے فلمستان سے شروعات کی اور ہندی سنیما کے سب سے بڑے میوزک کمپوزر ایس ڈی برمن کے طور پر نام کمایا۔
نتن بوس نے اگلی فلم مزدور کی ہدایت کاری کی تاہم لیکن فلم شکاری (1946)، جس کی موسیقی ایس ڈی۔ برمن نے ترتیب دی تھی، بہت کامیاب رہی اور بلاآخر سٹوڈیو کامیاب قرار پایا۔
سشادھر مکھرجی نے جان لیا تھا کہ اچھے گانے اور موسیقی فلم کی کامیابی کی ضمانت ہوتے ہیں۔ اس لیے ایس ڈی برمن کے بعد سی رام چندر اور ہیمنت کمار بھی فلمستان سے جُڑ گئے۔
اس سٹوڈیو کی موسیقی کی نشستیں اس وقت انڈسٹری میں کافی مشہور تھیں اور یہاں بننے والی فلموں میں سات آٹھ گانوں کا ہونا معمول کی بات تھی۔
بنکم چندر چٹرجی کے 1950 میں لکھے گئے بندے مارتم کو انڈیا کا قومی ترانہ بنایا گیا تھا لیکن یہ حیرت انگیز ترانہ دو سال بعد اپنے حقیقی معنوں میں پورے ملک میں جگہ بنا گیا جب ہیمنت کمار نے 1952 میں فلمستان میں اسے کمپوز کیا تھا۔
دلیپ کمار: فلمستان کے سٹار
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اور پھر وہ وقت آیا جب 1946 میں بعض اختلافات کی وجہ سے اشوک کمار نے فلمستان چھوڑ دیا اور واپس بمبے ٹاکیز چلے گئے اور وہاں کچھ ہٹ فلمیں بنائیں۔ لیکن ان کے بعد فلمستان کو ایک نئے اور بڑے سٹار کی ضرورت تھی۔
ایک سال بعد دلیپ کمار اور کامنی کوشل کی فلم ’ندیا کے پار‘ فلمستان میں ہٹ ہو گئی لیکن اصل ہلچل ان کی 1948 میں ریلیز ہونے والی فلم ’شہید‘ نے پیدا کی جو اس سال کی سب سے کامیاب فلم ثابت ہوئی۔
اس کے بعد کامنی کوشل کے ساتھ فلمستان کے لیے ان کی تیسری فلم شبنم بھی ہٹ رہی۔ فلمستان کے علاوہ دلیپ کمار نے دیگر پروڈیوسرز کے ساتھ مل کر میلہ اور انداز جیسی سپرہٹ فلمیں بھی دیں۔
ان دو سالوں نے دلیپ کمار کو ہندی سنیما کے سب سے بڑے سٹار اداکار کے طور پر متعارف کروایا۔
جب سشادھر مکھرجی نے فلمستان سٹوڈیو چھوڑا
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب 1950 میں، سشادھر مکھرجی نے سٹوڈیو میں اپنے حصص ایک تاجر تولارام کے ہاتھوں فروخت کر دیے۔
یہ وہ وقت تھا جب ممبئی میں ایک کے بعد ایک سٹوڈیو بند ہو رہا تھا۔ کئی سال تک فلمیں بنانے کے بعد وہ تھک چکے تھے اور بریک لینا چاہتے تھے۔ وہ انگلینڈ چلے گئے اور تولارام فلمستان کے چیف پروڈیوسر بن گئے لیکن ان کی بنائی ہوئی فلمیں نہیں چل سکیں۔
تولارام سمجھ گئے کہ فلمیں دوسرے کاروبار سے مختلف ہیں۔ فلمستان میں سشادھر مکھرجی کے تخلیقی خیالات کی کمی تھی۔
آخر کار سشادھر مکھرجی واپس آگئے اور ان کے ساتھ فلمستان کی کامیابی بھی لوٹ آئی۔
پردیپ کمار کو سٹار بنایا گیا
،تصویر کا ذریعہTwitter@NFAIOfficia
1953 میں بننے والی انارکلی نے ایک نئے ہیرو پردیپ کمار کو متعارف کروایا۔ انارکلی اس سال کی سب سے کامیاب فلم تھی۔ وہ کہانی جس پر کے آصف نے سات سال بعد مغل اعظم بنائی۔
انارکلی کے ساتھ ایک اور ستارہ پیدا ہوا۔ یہ سکرپٹ رائٹر ناصر حسین تھے جو بعد میں بالی وڈ کے بہت کامیاب پروڈیوسر ڈائریکٹر بن گئے۔ پردیپ کمار کے ساتھ ہیرو کے طور پر بنائی گئی اگلی فلم ناگن (1954) تھی جو اس سال کی سب سے بڑی بلاک بسٹر تھی اور اس نے پردیپ کمار کو سٹار بنا دیا۔
اداکارہ وجنتی مالا کی پہلی کامیاب ہندی فلم بھی ناگن تھی۔
ناگن کے گانے بہت ہٹ ہوئے اور اس کی ’ناگن دھن‘ آج بھی امر ہے۔ یہاں تک کہ ملک کے سانپ پالنے والے بھی اپنی بانسری پر ایک ہی دھن بجاتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ فلم کے لیے وہ دھن بین پر نہیں بلکہ کلیولین نامی ایک آلے پر بجائی گئی تھی۔
1954 فلمستان کا سنہری سال تھا۔
شہری زندگی کی فلمیں
،تصویر کا ذریعہGetty Images
تقسیم کے بعد ایک وقت ایسا آیا جب انڈیا میں دیہاتوں اور چھوٹے شہروں سے لوگ کام کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کرنے لگے۔
شہروں کے سینیما میں جدوجہد، خواب، رومانس اور کامیابی کی نئی کہانیاں ابھرنے لگیں۔ سشادھر مکھرجی بھی ایسی کہانیوں پر مبنی تفریحی اور تجارتی فلمیں بنانا چاہتے تھے۔
اس کی شروعات دیو آنند کے اکاؤنٹنٹ سے ہوئی۔ یہ فلم ناصر حسین نے لکھی تھی اور اس کی ہدایت کاری سشادھر کے چھوٹے بھائی نے کی تھی۔ فلم ہٹ رہی اور اگلی فلم میں بھی یہی ٹیم تھی اور ہیرو بھی دیو آنند تھے۔
اس بار نہ صرف تھیم شہری تھی بلکہ فلم کا نام بھی انگریزی میں ’پیئنگ گیسٹ‘ تھا۔ اس وقت یہ بالکل نئے انداز کی فلم تھی اور بہت ہٹ ہوئی تھی۔ کشور کمار اور آشا بھوسلے کے گائے ہوئے گیت آج تک لوگوں کو ازبر ہیں۔
اسی سال مصنف ناصر حسین کو فلمستان کی اگلی فلم ’تمہیں نہیں دیکھا‘ سے ہدایت کار بننے کا موقع ملا۔ ہیرو کے کردار کے لیے دیو آنند سے رابطہ کیا گیا۔
کسی وجہ سے انھوں نے انکار کر دیا اور پھر فلم کے ہیرو شمی کپور تھے جو اس وقت تک انڈسٹری میں جدوجہد کر رہے تھے اور اس بلاک بسٹر میوزیکل فلم سے انھیں پہلی بڑی کامیابی ملی۔
لیکن اس فلم کے ساتھ ہی سٹوڈیو کی قسمت ایک بار پھر بدل گئی۔ یہ فلم فلمستان کی آخری ہٹ فلم ثابت ہوئی۔
تولارام اور سشادھر مکھرجی کے درمیان کچھ ایسا ہوا جس کے بعد مکھرجی نے ایک بار پھر فلمستان چھوڑ دیا۔ اس بار وہ واپس نہیں آئے۔ ان کے بعد کئی فلمیں بنیں لیکن ان میں وہ چیز نہیں تھی جو پچھلی ٹیم کی بنائی گئی فلموں میں تھی۔
1943سے 1957 تک سشادھر مکھرجی نے فلمستان کے لیے 27 فلمیں بنائیں جن میں سے 19 ہٹ ہوئیں۔ ایک ایسے وقت میں جب سٹوڈیوز عام طور پر اداکار اورہدایت کار (راج کپور، وی شانتارام) چلاتے تھے، سشادھر مکھرجی نے خود کو ایک پروڈیوسر کے طور پر منوایا۔
انھوں نے نہ صرف فلمیں بنائیں بلکہ کئی ستارے بھی متعارف کروائے اور فلمستان سٹوڈیو کو آسمان کی بلندی پر پہنچایا۔
مکھرجی خاندان
مکھرجی کے خاندان کا شمار فلم انڈسٹری کے ممتاز خاندانوں میں ہوتا ہے اور وہ آج تک فلموں سے وابستہ ہیں۔
مکھرجی کے چھوٹے بھائی فلم ڈائریکٹر سبودھ مکھرجی اور فلم پروڈیوسر پربودھ مکھرجی تھے۔ سشادھر کے چار بیٹے تھے جن کے نام جوئے مکھرجی، دیب مکھرجی، شومو مکھرجی اور شبیر مکھرجی ہیں۔
دیب مکھرجی کے بیٹے آیان مکھرجی آج ایک کامیاب ہدایت کار ہیں۔ شومو کی بیٹی اداکارہ کاجول ہیں۔ سشادھر کے بڑے بھائی فلموں میں نہیں تھے لیکن ان کی پوتی رانی مکھرجی فلموں پر راج کرتی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی فلمستان سٹوڈیو جو کہ اپنے سنہرے دور کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے اب بھی ممبئی کے شہر گرگاؤں میں موجود ہے اور اپنے وجود کی بقا کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
یہاں اب اکثر ٹی وی سیریل اور اشتہارات کی شوٹنگ ہوتی ہے۔ موجودہ حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ چند سالوں میں اس کا حشر بھی آر کے اسٹوڈیو جیسا ہو جائے گا۔ یہاں بھی فلم سٹوڈیو کی جگہ نیا کمپلیکس بنایا جائے گا۔
لیکن سٹوڈیو زندہ رہے یا نہ رہے، اس کی کامیابی کی کہانی فلمی تاریخ میں باقی رہے گی۔