،تصویر کا ذریعہPAF
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستانی فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ ایئر مارشل کو حبس بےجا میں رکھنے سے متعلق درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کی ہے۔ ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کی اہلیہ کی درخواست پر عدالت کو بتایا گیا کہ حساس دستاویزات شیئر کرنے کے الزام پر ان کا کورٹ مارشل کیا گیا تھا اور انھیں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج خادم حسین سومرو نے شازیہ جواد کی طرف سے دائر کی گئی حبس بےجا کی درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراض کے ساتھ ہی سماعت کی۔
رجسٹرار آفس کی جانب سے یہ اعتراض عائد کیا گیا تھا کہ اس درخواست میں ایئر چیف مارشل کو فریق نہیں بنایا جاسکتا۔
تاہم دوران سماعت اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عظمت بشیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ حساس دستاویز لیک کرنے سے متعلق آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے پر جواد سعید کا کورٹ مارشل ہوچکا ہے اور انھیں اس ضمن میں سزا بھی سنائی جاچکی ہے۔
عدالت نے درخواست خارج کرتے ہوئے 15 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔
جواد سعید مارچ 2021 کے دوران ایئر مارشل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے اور انھیں مختلف خدمات پر سرکاری اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا۔
سماعت کے دوران کورٹ مارشل اور رحم کی اپیل کا ذکر
اس کیس کی سماعت کے دوران اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 27 جنوری 2024 کو ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کا کورٹ مارشل ہوچکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 11 مارچ سنہ 2024 کو ان کی اپیل پر بھی فیصلہ ہوچکا ہے جبکہ اب ان کی رحم کی اپیل ایئر چیف مارشل کے پاس زیر التوا ہے۔
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کے خلاف آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی سے متعلق چھ چارجز تھے جن میں انھیں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تاہم اس سزا کے خلاف اپیل پر ان کی سزا میں دس سال کی کمی کر کے چار سال کر دی گئی ہے۔
خیال رہے کہ یہ قانون برطانوی راج کے دوران سنہ 1923 میں بنایا گیا تھا جس کا مقصد فوج سے متعلق خفیہ معلومات فراہم کرنے پر کارروائی کرنا تھا۔
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ ابھی ان کی رحم کی اپیل ایئر چیف مارشل کے پاس زیر التوا ہے۔
عدالت نے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ‘کورٹ مارشل اور اپیل جس میں سزا ہوئی ہے اس کا تحریری آرڈر کہاں ہے؟’ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ ’ابھی مکمل آرڈر ان کے پاس نہیں ہے اور اس ضمن میں ایک پیراگراف ہے جس میں الزامات اور سزا کا ذکر ہے۔‘
درخواست گزار شازیہ جواد کے وکیل عبدالوحید روسٹم پر آئے اور انھوں نے کہا کہ ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کی اہلیہ اور ان کی بیٹیوں کو ‘بتائے بغیر کیسے انھیں سزا سنائی جاسکتی ہے؟’ ان کا کہنا تھا کہ ان کے وکیل کو بھی ان تک رسائی نہیں دی گئی۔
عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کے بقول ان کے پاس جو پیراگراف ہے اس میں جرائم اور سزا کا ذکر بھی موجود ہے تو اس طرح شوہر کی ‘گمشدگی کی درخواست’ درست نہیں ہے۔
جسٹس خادم حسین نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ گمشدگی یا حبس بے جا کی درخواست میں چیف آف ایئر سٹاف کو کیسے فریق بنایا جاسکتا ہے جس پر عبدالوحید ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اس سے پہلے بھی کئی درخواستوں میں نیول چیف اور ایئر چیف کو فریق بنایا گیا ہے اور عدالتوں نے اس ضمن میں انھیں نوٹس بھی جاری کیے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ان کی موکلہ کے شوہر کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہے اور نہ ہی اس ضمن میں کسی ادارے کی جانب سے کوئی بیان سامنے آیا ہے۔
’گھر سے اٹھا لیا گیا‘
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’جواد سعید ایک ریٹائرڈ پرسن ہیں جنھیں غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید پر کون سا الزام ہے اور کب ان کا کورٹ مارشل ہوا۔‘
عبدالوحید ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی کورٹ مارشل ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی سزا سے متعلق اگر جواد سعید کی فیملی کو بتایا گیا ہے تو کم از کم اس کا کوئی ریکارڈ ہی دیکھا دیں۔
انھوں نے کہا کہ ‘میری موکلہ کے شوہر پر کیا الزامات ہیں، اس کے بارے میں ان کی فیصلی کو بھی معلومات حاصل نہیں ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کیسے بغیر وکیل کو رسائی دیے انھیں سزا بھی دے دی گئی۔’
انھوں نے کہا کہ جواد سعید 18 مارچ 2021 کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور انھیں یکم جنوری 2024 کو ‘گھر سے اٹھا لیا گیا۔’
انھوں نے کہا کہ جواد سعید ریٹائرمنٹ کے بعد ایک سویلین ہیں اور ان پر پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953 کا اطلاق نہیں ہوتا۔
عبدالوحید ایڈووکیٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ اس درخواست میں بنائے گئے فریق کو حکم دیں کہ وہ ریکارڈ دکھا دیں تو وہ درخواست واپس لے لیں گے۔ اس پر عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘اب یہ پٹیشن واپس نہیں ہوگی کیونکہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ ان کی موکلہ کے شوہر کے خلاف چارجز عائد ہوئے ہیں۔’
یوں عدالت نے اس درخواست کو 15 ہزار روپے جرمانے کے ساتھ خارج کیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ انھیں جواد سعید کے کورٹ مارشل کا ریکارڈ فراہم کیا جائے۔ عدالت اس ضمن میں کوئی حکم جاری کرتی اس سے پہلے ہی وزارت دفاع کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ ایئر چیف نے ریکارڈ فراہم کرنے کی اجازت نہیں دی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ‘جب ایئرمارشل ریٹائرڈ جواد سعید کا کورٹ مارشل بھی ہوچکا ہے اور انھیں سزا بھی سنائی جاچکی ہے تو انھیں ابھی تک جیل بھیجنے کی بجائے اپنی تحویل میں کیوں رکھا گیا ہے؟’ تو وزارت دفاع کے نمائندے اس ضمن میں عدالت کو مطمئن نہ کر سکے۔
درخواست گزار کے وکیل عبدالوحید کا کہنا ہے کہ وہ ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کے کورٹ مارشل اور ان کو قانونی تقاضے پورے کیے بغیر دی گئی سزا کے فیصلے کو چیلنج کریں گے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پہلے تو انھیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کو کس جرم میں حراست میں رکھا ہے تاہم اب عدالت کو اس ضمن میں آگاہ کر دیا گیا ہے جس کے بعد عبدالوحید ایڈووکیٹ کے بقول ان کے لیے لیگل ریمیڈی حاصل کرنے کے بہت سے راستے کھل گئے ہیں۔
ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کون ہیں اور ان کا خاندان کیا چاہتا ہے؟
جولائی 2018 میں اس وقت پاکستانی فضائیہ میں وائس ایئر مارشل جواد سعید کو ایئر مارشل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی اور وہ مارچ 2021 کے دوران اس عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔
تھری سٹار ایئر مارشل کے عہدے کو لیفٹیننٹ جرنل کے برابر تصور کیا جاتا ہے۔
انھوں نے نومبر 1986 میں پاکستان ایئر فورس کی جی ڈی پی برانچ میں کمیشن حاصل کیا۔ سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق اپنے کیریئر کے دوران انھوں نے فائٹر سکواڈرن، فائٹر ونگ، آپریشنل ایئر بیس اور ریجنل ایئر کمانڈ کی کمان کی۔
مقامی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق ریٹائرمنٹ سے قبل ان کا نام مارچ 2021 کو فضائیہ کے سب سے سینیئر افسران کی اس سمری میں شامل تھا جو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو ایئر چیف کی تعیناتی کے لیے بھیجی گئی تھی۔
وہ ایئر ہیڈکوارٹرز اسلام آباد میں اسسٹنٹ چیف آف ایئر سٹاف (آپریشنز) اور ڈپٹی چیف آف ایئر سٹاف (آپریشنز) بھی تعینات رہے ہیں۔
وہ کمبیٹ کمانڈر سکول، ایئر وار کالج اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔
ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کو ماضی میں سرکاری اعزازات ستارۂ امتیاز اور تمغۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔
تاہم ان کے حوالے سے حالیہ عرصے میں ان کی اہلیہ نے عدالت میں درخواست دائر کی جس میں کہا گیا کہ ان کے شوہر کے خلاف کوئی بھی کیس درج نہیں ہے اور ان کی حراست ‘غیر قانونی’ ہے۔
اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ ‘جبری تحویل بنیادی آئینی حقوق کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے انٹرنیشل چارٹر برائے انسانی حقوق کے بھی خلاف ہے۔’
اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی جانے والی اس درخواست میں کہا گیا کہ جواد سعید کو ‘عدالت میں پیش کیا جائے اور اگر ان پر کوئی الزام ہے تو قانون کے مطابق عدالتی کارروائی کی ہدایت کی جائے۔’
اس درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جواد سعید نے سروس کے دوران اہم آپریشنل اور سٹاف اسئنمنٹس کیں مگر اب اہل خانہ کو بتایا گیا کہ وہ پاکستان ایئر فورس کی تحویل میں ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی اپنے شوہر سے ملاقات کروائی گئی تھی اور یقین دہائی کروائی گئی تھی کہ انھیں جلد رہا کر دیا جائے گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کی پنشن بھی بند کر دی گئی ہے۔