،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, سوتک بسواس
- عہدہ, بی بی سی نیوز
’توند‘ یا بڑھا ہوا پیٹ جسے کبھی انڈیا میں خوشحالی، عیش وعشرت اور بعض اوقات بڑھاپے میں قابلِ احترام ہونے کی علامت سمجھا جاتا تھا، اب طویل عرصے سے طنزو مزاح کے طور پر موضوع بحث بن چکا ہے۔
ادب یا لٹریچر کی بات کریں تو اس میں عموماً آرام طلب یا خود پسند انسانوں کا پیٹ بڑھا ہوا پیش کیا جاتا تھا۔ فلموں میں کاہل اور سست، زیادہ کھانے والے اور بعض اوقات بدعنوان اور رشوت خور سرکاری افسروں کا کردار ادا کرنے والے کے لیے بھی توند ایک لازمی علامت تھی۔
اور اگر انڈیا میں اخبارات میں چلنے والے کارٹونز پر نظر ڈالیں تو سیاستدانوں کا مذاق اڑانے کے لیے اُن کا پیٹ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جانا بھی معمول کی بات رہی ہے۔
دیہی علاقوں میں توند کا ہونا کبھی عزت اور مرتبے کی علامت سمجھی جاتی تھی یعنی توند والے آدمی کے لیے سمجھا جاتا تھا کہ اس کا تعلق کھاتے پیتے گھرانے سے ہے۔
لیکن اب وہی سراہے جانے یا نظرانداز کی جانے والی چیز خطرے کی گھنٹی بن چکی ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ بظاہر بے ضرر نظر آنے والی توند حقیقت میں بڑا خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔
سنہ 2021 میں انڈیا میں 18 کروڑ بالغ افراد موٹاپے یا زیادہ وزن کا شکار تھے۔ پوری دنیا میں چین کے بعد دوسرے نمبر پر انڈیا میں سب سے زیادہ موٹاپے کا شکار افراد موجود ہیں۔
سائنسی جریدے ’دی لانسیٹ‘ کی ایک نئی تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ انڈیا میں یہ تعداد سنہ 2050 تک بڑھ کر 45 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے جو ملک کی آبادی کا تقریباً ایک تہائی ہو گا۔
انڈیا میں اس مسئلے کی جڑ توند ہے، جسے طبی اصطلاح میں ’پیٹ کا موٹا ہونا‘ (abdominal obesity) کہا جاتا ہے۔
توند کا بڑھنا پیٹ کے گرد اضافی چربی جمع ہونے کو ظاہر کرتا ہے اور ماہرین صحت کے مطابق یہ صرف ظاہری مسئلہ نہیں بلکہ صحت کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہے۔
1990 کی دہائی سے ہی ہونے والی سائنسی تحقیقات میں خبردار کیا جاتا رہا ہے کہ پیٹ پر اضافی چربی اور دائمی بیماریوں، جیسا کہ ٹائپ ٹو ذیابیطس اور دل کے امراض کے درمیان ایک واضح تعلق ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
موٹاپا صرف پیٹ تک محدود نہیں ہوتا بلکہ یہ جسم کی مختلف جگہوں پر مختلف انداز سے نمایاں ہو سکتا ہے۔
پیریفیرل موٹاپے میں چربی زیادہ تر کولہوں، رانوں اور جسم کے پچھلے حصے پر جمع ہوتی ہے جبکہ جنرلائزڈ یا عمومی موٹاپا پورے جسم پر یکساں چربی پھیلنے کے عمل کو کہتے ہیں۔
انڈیا میں موٹاپے کے اعداد و شمار پہلے ہی تشویشناک ہیں۔
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے میں پہلی بار کمر اور کولہے کی پیمائش کا جائزہ لیا گیا اور اس میں سامنے آیا کہ انڈیا میں تقریباً 40 فیصد خواتین اور 12 فیصد مرد پیٹ کے موٹاپے کا شکار ہیں یعنی ان کے پیٹ بڑھے ہوئے ہیں۔
انڈیا میں طبی گائیڈ لائنز کے مطابق مردوں کے لیے 90 سینٹی میٹر (35 انچ) اور خواتین کے لیے 80 سینٹی میٹر (31 انچ) سے زائد کمر پیٹ کے موٹاپے کی نشاندہی کرتی ہے۔
سروے کے دوران 30 سے 49 سال کی عمر کی خواتین میں تقریباً ہر دوسری خاتون میں اس کی علامات پائی گئی ہیں۔
موٹاپے سے متاثرہ افراد میں شہری آبادی دیہی علاقوں کے مقابلے میں زیادہ خطرے میں پائی گئی ہے ۔ شہری آبادی میں کمر کا سائز بڑھنا یا کمرسے کولہوں تک کا غیر متناسب ہونا ایک بڑے خطرے کے طور پر سامنے آیا ہے۔
پیٹ کی چربی اتنی خطرناک کیوں
،تصویر کا ذریعہAFP
طبی ماہرین اس کی ایک بڑی وجہ انسولین کے خلاف مزاحمت قرار دیتے ہیں۔ یعنی ایک ایسی حالت جس میں جسم انسولین پر مناسب ردعمل دینا چھوڑ دیتا ہے۔
یاد رہے کہ انسولین وہ ہارمون ہے جو خون میں شوگر کی سطح کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔
پیٹ کی چربی جسم میں انسولین کے کام کرنے کے طریقے میں خلل ڈالتی ہے جس سے خون میں شوگر کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ انڈیا سمیت جنوب ایشیائی افراد میں سفید فام افراد، میں یکساں باڈی ماس انڈیکس (BMI) کی نسبت زیادہ چربی پائی گئی۔
یاد رہے کہ ’بی ایم آئی‘ جسم کی چربی کی ایک سادہ سی پیمائش ہے جو وزن اور قد کی نسبت سے نکالی جاتی ہے۔
تاہم یہ معاملہ صرف چربی کی مقدار کا نہیں بلکہ یہ بھی نہایت اہم ہے کہ چربی جسم میں کہاں جمع ہو رہی ہے۔
جنوب ایشیائی افراد میں چربی اکثر جلد کے نیچے اور پیٹ کے اردگرد جمع ہوتی ہے تاہم پیٹ کے اندرونی حصے میں گہرائی تک نہیں جاتی جیسا کہ ویسیرل فیٹ (visceral fat) میں ہوتا ہے۔
اگرچہ جنوبی ایشا میں رہنے والے افراد میں جگر اور لبلبے جیسے اہم اعضا کے گرد نقصان دہ چربی نسبتاً کم ہو سکتی ہے تاہم تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس خطے کے افراد کے جسم میں موجود چربی کے خلیے (fat cells) اسے جلد کے نیچے محفوظ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
نتیجتاً اضافی چربی ان اہم اعضا میں جمع ہونے لگتی ہے جو جسم کے میٹابولزم کو کنٹرول کرتے ہیں مثلاً جگر اور یہ صورتحال کسی بھی شخص میں ذیابیطس اور دل کے امراض کے خطرات کو بڑھا دیتی ہے۔
پیٹ کی چربی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ طرزِ زندگی میں تبدیلیاں
سائنسدان تاحال ہمارے جسموں میں چربی کی تقسیم کے اس عمل کے پیچھے موجود بائیولوجیکل وجوہات کو مکمل طور پر سمجھ نہیں پائے ہیں۔
اگرچہ اس بارے میں کئی تحقیقات کی جا چکی ہیں لیکن کوئی بھی مطالعہ اس مخصوص رجحان کی مکمل وضاحت نہیں کر سکا۔
ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ اس رجحان کی جڑیں انسان کے ارتقائی عمل سے جا ملتی ہیں۔ انڈیا میں صدیوں تک قحط اور غذائی قلت رہی ہے جس کے باعث کئی نسلوں تک لوگ غذائی قلت کا شکار رہے۔ ایسے حالات میں انسانی جسم نے غذا کے بحران کے دوران بقا کے لیے خود کو ڈھالا۔
جسم کو توانائی ذخیرہ کرنے کے لیے ایک جگہ درکار تھی اور چونکہ پیٹ سب سے زیادہ پھیلنے والا حصہ ہوتا ہے اس لیے یہ قدرتی چربی کے ذخیرے کا مرکز بنتا گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ جب خوراک وافر دستیاب ہو گئی تو یہ چربی کا ذخیرہ بھی بڑھتا گیا یہاں تک کہ یہ انسانی جسم کے لیے خطرے کی حد تک پہنچ گیا۔
اس نظریے سے فورٹس سی ڈاک سینٹر آف ایکسیلینس برائے ذیابیطس، میٹابولک امراض اور اینڈوکرائنولوجی کے سربراہ ڈاکٹر انوپ مشرا کافی حد تک متفق دکھائی دیتے ہیں۔
اُن کے مطابق ’یہ ایک ایسا نظریہ ہے جس کی بنیاد کا قیاس ارتقائی عمل پر رکھا گیا ہے۔ جسے ثابت تو نہیں کیا جا سکتا لیکن اس میں کچھ نہ کچھ وزن ضرور موجود ہے۔‘
گذشتہ سال انڈین اوبیسٹی کمیشن سے وابستہ ڈاکٹروں نے ایک تحقیق میں ایشیئن انڈینز کے لیے موٹاپے کی نئی تعریف پیش کی گئی جس میں انھوں نے باڈی ماس انڈیکس سے آگے بڑھتے ہوئے جسمانی چربی اور صحت کے ابتدائی خطرات کے درمیان تعلق کو بہتر انداز میں بیان کیا گیا۔
انھوں نے اس کے لیے ایک طبی نظام وضع کیا جس میں چربی کی تقسیم، اس سے منسلک بیماریوں اور جسمانی کارکردگی کو مدنظر رکھا گیا۔ اس تحقیق میں دو مرحلے بیان کیے گئے جن کے مطابق:
- پہلے مرحلے میں انسان کا باڈی ماس انڈیکس تو زیادہ ہوتا ہے، لیکن پیٹ کی چربی، میٹابولزم سے متعلق بیماریاں یا جسمانی کمزوری نہیں پائی جاتی
ایسے افراد میں عمومی طور پر غذا، ورزش اور بعض اوقات دوا کے ذریعے طرز زندگی میں تبدیلی ہی کافی ہوتی ہے۔
- دوسرے مرحلے میں پیٹ کی چربی (یعنی نقصان دہ ویسیرل فیٹ) شامل ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ذیابیطس، گھٹنوں کا درد یا دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی جیسے مسائل بھی موجود ہوتے ہیں۔
یہ مرحلہ زیادہ خطرے کی نشاندہی کرتا ہے اور اس میں زیادہ سنجیدگی کے ساتھ مکمل علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ درجہ بندیاں علاج کی ضرورت کو طے کرنے میں مدد دیتی ہے۔
جیسے ہی پیٹ کے اردگرد چربی محسوس ہونے لگے اس کو روکنے کے لیے فوری اقدام اٹھانا ضروری ہوتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق اس کے لیے وزن کم کرنے والی جدید دوائیں جیسے سیماگلوٹائڈ اور تیرزیپیٹائڈ مؤثر ثابت ہو رہی ہیں۔
ڈاکٹر انوپ مشرا مزید کہتے ہیں کہ ’یہ سُن کر شاید آپ حیران ہوں تاہم بعض اوقات بالکل معمولی وزن رکھنے والے افراد کے پیٹ میں بھی خطرناک حد تک چربی موجود ہو سکتی ہے۔‘
توند سے چھٹکارے کے لیے کیا کریں؟
انڈین ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ پیٹ کی چربی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ طرزِ زندگی میں تبدیلیاں ہیں جیسے فاسٹ فوڈ، ٹیک اوے کی سہولت، جھٹ پٹ تیار ہونے والے کھانے اور چکنائی سے بھرپور گھریلو پکوان بھی اس کی وجوہات میں شامل ہیں۔
تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ سنہ 2009 سے سنہ 2019 کے درمیان کیمرون، انڈیا اور ویتنام میں انتہائی پراسیسڈ خوراک اور مشروبات کی فروخت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
ماہرین کے مطابق انڈین شہریوں کو مغربی ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت طرزِ زندگی اپنانے کی ضرورت ہے۔
جہاں یورپی مردوں کو ایک ہفتے کے دوران ڈھائی گھنٹے کی ورزش کافی ہو سکتی ہے وہیں جنوبی ایشیائی مردوں کو ایک ہفتے میں چار سے پانچ گھنٹے تک ورزش کرنا ضروری ہے کیونکہ اس خطے کے افراد کے جسم کا میٹابولزم سست ہوتا ہے اور چربی کو مناسب ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی یورپی افراد کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتی ہے۔
ڈاکٹر مشرا کے مطابق ’ہمارے جسم اضافی چربی کو سنبھالنےمیں اتنے اچھے نہیں۔‘
مختصراً یہ کہ توند صرف مذاق کا موضوع نہیں رہی بلکہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے اور انڈیا میں یہ صورتحال صحت کے بحران کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔