،تصویر کا ذریعہGetty Images
زمین کا عالمی دن ہر سال 22 اپریل کو منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے منتخب کردہ یہ تاریخ 22 اپریل 1970 کو پیش آئے اُن واقعات کی یاد دلاتی ہے جب دو کروڑ لوگ امریکہ کے اہم شہروں کی سڑکوں پر اُن ماحولیاتی نقصانات کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے نکلے جو انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ہو رہے تھے۔
اس یوم ارض پر، آئیے اس سیارے کے بارے میں کچھ دلچسپ حقائق پر ایک نظر ڈالتے ہیں جسے ہم اپنا گھر کہتے ہیں۔
1۔ زمین بالکل گول نہیں ہے
کیا زمین گول ہے تو اس کا عمومی جواب ہے ’ہاں‘۔
زمین کو عام طور پر ایک بالکل گول کرہ کے طور پر دکھایا جاتا ہے، لیکن یہ اس کی قطعی شکل نہیں ہے۔ زمین اپنے قطبین پر سے چپٹی ہے، اس لیے اس کی شکل کا درست نام ’اولیٹ سفیرائڈ‘ ہے۔
دوسرے سیاروں کی طرح، کشش ثقل کا اثر اور اس کے محور پر گردش سے پیدا ہونے والی سینٹرفیوگل فورس قطبین کے چپٹے ہونے اور استوائی چوڑائی کی وجہ ہے۔
اس طرح خط استوا پر زمین کا قطر ایک قطب سے دوسرے قطب کے قطر کے مقابلے میں تقریباً 43 کلومیٹر زیادہ ہے۔
2۔ زمین کے 70 فیصد حصے پر پانی ہے
،تصویر کا ذریعہGetty Images
یہ پانی گلیشیئرز، دلدلوں، جھیلوں، دریاؤں اور سمندروں کی شکل میں زمین کی سطح کے تقریباً تین چوتھائی حصے پر پھیلا ہوا ہے۔
زمین پر پانی ٹھوس، مائع اور گیس تینوں حالتوں میں موجود ہے لیکن تمام سیارے کے پانی کا تقریباً 97 فیصد سمندروں میں نمکین پانی کے طور پر موجود ہے۔
3. خلا زمین سے صرف 100 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے
زمین کی فضا اور خلا کے درمیان سرحد کو ’کرمان لائن‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جو سطح سمندر سے 100 کلومیٹر بلند ہے۔
75 فیصد کے قریب ایٹموسفیئرک ماس یا ماحولیاتی کمیت سطحِ سمندر سے ابتدائی 11 کلومیٹر کی بلندی تک پائی جاتی ہے۔
4. زمین کا مرکز لوہے کا بنا ہوا ہے
،تصویر کا ذریعہGetty Images
زمین نظام شمسی کا سب سے گھنا اور پانچواں بڑا سیارہ ہے۔
زمین کا سب سے اندرونی حصہ ایک ٹھوس گیند سمجھا جاتا ہے جس کا رداس تقریباً 1200 کلومیٹر ہے۔
یہ بنیادی طور پر لوہے پر مشتمل ہے جو کہ اس کے وزن کا 85 فیصد ہے جبکہ نِکل دوسری بڑی دھات ہے اور زمین کے اندرونی حصے کا تقریباً 10 فیصد اس پر مشتمل ہے۔
5. زندگی صرف زمین پر
زمین کائنات کی وہ واحد فلکیاتی شے ہے جہاں زندگی کی موجودگی کی تصدیق ہو سکی ہے۔
فی الحال زمین پر جانوروں کی تقریباً 12 لاکھ انواع کا پتا لگایا جا چکا ہے حالانکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کل انواع کا ایک چھوٹا حصہ ہے۔
سنہ 2011 میں سائنسدانوں نے اندازہ لگایا کہ دنیا میں مجموعی طور پر تقریباً 87 لاکھ انواع کی مخلوقات موجود ہیں۔
زمین کی تشکیل تقریباً ساڑھے چار ارب سال پہلے ہوئی تھی اور اس کی طبعی خصوصیات، ارضیاتی تاریخ اور اس کے مدارکی وجہ سے یہاں زندگی کروڑوں یا اربوں سالوں سے موجود رہی ہے۔
6. زمین پر کششِ ثقل ایک جیسی نہیں
،تصویر کا ذریعہGetty Images
چونکہ ہمارا سیارہ ایک کامل کرہ یا بالکل گول نہیں ہے اور اس کے علاوہ یہاں کمیت یکساں طریقے سے تقسیم نہیں، اس لیے کشش ثقل کی طاقت میں فرق پایا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر جیسے جیسے ہم خط استوا سے قطبین کی طرف بڑھتے ہیں، کشش ثقل کی شدت بتدریج بڑھتی جاتی ہے تاہم یہ فرق انسان محسوس نہیں کر سکتے۔
7. انتہاؤں کا سیارہ
ہمارا سیارہ تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے جغرافیائی علاقوں اور اس کی آب و ہوا کے تغیر کا مطلب ہے کہ تقریباً ہر خطے کی اپنی خصوصیات ہیں۔
زمین پر سب سے زیادہ گرم مقام سمجھے جانے کے لیے مختلف امیدوار ہیں، لیکن اب تک کا سب سے زیادہ درجہ حرارت امریکہ میں ڈیتھ ویلی میں ہے، جہاں 10 جولائی 1913 کو 56.7 سنٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔
دوسری انتہا پر انٹارکٹیکا ہے جہاں 31 جولائی 1983 کو ووسٹوک سٹیشن پر درجۂ حرارت منفی 89.2 سنٹی گریڈ تک گر گیا تھا۔
8. سب سے بڑی زندہ چیز
،تصویر کا ذریعہGetty Images
آسٹریلیا کے ساحل پر واقع گریٹ بیریئر ریف، کرہ ارض پر موجود جانداروں سے بنا سب سے بڑا واحد ڈھانچہ ہے۔ یہاں تک کہ یہ واحد واحد ہے جسے خلا سے دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ 2,000 کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور ہزاروں سمندری مخلوقات کا گھر ہے۔
1981 میں اسے یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔
9. متحرک ٹیکٹونک پلیٹس والا واحد سیارہ
زمین نظامِ شمسی کا واحد سیارہ ہے جس میں متحرک ٹیکٹونک پلیٹس یا تہیں پائی جاتی ہیں۔
ان پلیٹس کی حرکت کا مطلب ہے کہ ہمارے سیارے کی سطح مسلسل بدل رہی ہے۔
یہ پہاڑوں کی تشکیل، زلزلوں اور آتش فشانی کے لیے بھی ذمہ دار ہیں۔
ان پلیٹس کا سائیکل زمین کے درجہ حرارت کو منظم کرنے میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی گرین ہاؤس گیسوں کی ری سائیکلنگ میں حصہ ڈالتا ہے، جس سے سمندر کے فرش کی تہوں کی مستقل تجدید ہوتی ہے۔
10. زمین کا اپنا حفاظتی حصار ہے
،تصویر کا ذریعہGetty Images
زمین کا مقناطیسی میدان سورج سے نکلنے والے انتہائی زیادہ توانائی والے ذرات کے خلاف حفاظتی ڈھال کا کام کرتا ہے۔
یہ میدان زمین کے سب سے اندرونی حصے سے اس کنارے تک پھیلا ہوا ہے جہاں تک شمسی ہوا پہنچتی ہے۔
دیگر چیزوں کے علاوہ یہ مقناطیسی میدان راستہ تلاش کرنے میں بھی کچھ جانوروں اور پرندوں کی مدد کرتا ہے اور انسان بھی قطب نما کے استعمال میں اس سے مدد لیتے ہیں۔